جب نواز شریف نے لندن میں رک جانے سے انکار کر دیا

جب نواز شریف نے لندن میں رک جانے سے انکار کر دیا
ہمیں یاد ہے 2018 کے اس ماہ جون کی وہ 25 تاریخ جب مریم نواز سے سوال تو 2018 کے الیکشن کا ہوا مگر ان کا جواب تھا کہ زندگی میں کچھ وقت کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب انسان سب کچھ چھوڑ کر رشتے و تعلق کو ہر چیز پر فوقیت دیتا ہے۔ اس وقت میری ماں سے بڑھ کر میرے لئے کچھ نہیں۔

یہ وہی دن تھے جب ہارلے سٹریٹ کلینک کے ایک کمرے میں اپنی زندگی کے آخری ایام گنتی بیگم کلثوم نواز صاحبہ کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔

ہم اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے لئے صبح سے شام تک ہارلے سٹریٹ کلینک کے باہر موجود رہتے اور اس دوران نہ صرف ہمارے اداروں سے وابستہ سینیئرز بلکہ دیگر نامور سیاسی تجزیہ نگار بھی روزانہ کی بنیاد پر ہم سے رابطہ کرتے اور کہتے تھے کہ اندر کی خبر نکالو۔ ہمارے پاس پکی اطلاعات ہیں کہ بیگم کلثوم نواز بیمار نہیں ہیں، یہ ایک سیاسی ڈرامہ ہے اور جب خاندان کے افراد انہیں ملنے آتے ہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی ہیں، کھانا کھاتی ہیں۔ جب کہ ہارلے سٹریٹ کلینک سے شریف خاندان کی کاروباری شراکت بھی ہے۔

ایک طرف پاکستان سے رابطہ کر کے بہت سے افراد ہمیں یہ کہانیاں سناتے اور دوسری طرف جب بھی شریف خاندان کا کوئی فرد بیگم کلثوم نواز کی عیادت کرنے کے بعد ہارلے سٹریٹ کلینک سے باہر آتا اس کی چشم تر ہمیں ان کی حالت سے آگاہ کر دیتی۔

ہم یه بھی دیکھتے کہ حسین نواز اس کلینک کے عقب میں بہت دیر تک چہل قدمی کے دوران قرانی آیات کا ورد کرتے ہوئے اپنی والدہ کی صحت یابی کی دعا کرتے رہتے مگر یقین تھا کہ آتا ہی نہیں تھا ان افراد کو جو پاکستان کے نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر اس بیمار خاتون کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ بلکہ یہ درس بھی دیتے تھے کہ شریف خاندان کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے یوں بیماری کا ڈھونگ نہیں رچانا چاہیے۔

نہ صرف اعتزاز احسن بلکہ نعیم بخاری اور کچھ دیگر نام بھی اس بہتان طرازی کی مہم میں آگے آگے تھے۔

اس جھوٹی مہم کا برطانیہ میں اتنا اثر ہوا کہ تحریک انصاف سے وابستہ کچھ افراد نے ہارلے سٹریٹ کے اندر جانے کی کئی بار کوشش کی کہ کسی طرح بیگم کلثوم نواز کے کمرے تک رسائی حاصل کر کے ان کی ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ گفتگو کی ویڈیو یا چند تصاویر بنا لی جائیں۔

بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ پارک لین پر واقع میاں نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور جب بھی شریف خاندان کا کوئی فرد اپنے گھر سے اسپتال جانے کی غرض سے نکلتا، اس پر جملے کسے جاتے، اس کا گھیراؤ کیا جاتا۔ ان کی رہائش گاہ پر حملہ بھی کیا گیا اور درازہ تک توڑنے کی کوشش کی گئی۔

بہتان طرازی کی اسی مہم کا اثر تھا کہ ہم جو آنکھوں دیکھا حال لکھتے اور بولتے تو ہم پر جانبداری اور لفافہ لینے کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی۔ بیگم کلثوم نواز کی طویل علالت کے دوران اس طویل بہتان طرازی مہم کے بہتان و الزامات بھی بدلتے گئے۔

کل تک جو افراد اس بات کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کر رہے تھے کہ بیگم کلثوم نواز بیمار ہیں، اب کہنے لگے کہ وہ انتقال کر گئی ہیں اور شریف خاندان نے لاش کو وینٹی لیٹر لگا رکھا ہے اور الیکشن کے قریب ان کی موت کا اعلان کر کے سیاسی فائدہ اور ہمدردی حاصل کی جائے گی۔ لندن میں مقیم پاکستانی میڈیا سے وابستہ کچھ صحافی بھی اس گھٹیا مہم کا حصہ بنے رہے جو مختلف ٹاک شوز میں سینیئر صحافی کے طور پر لیے گئے اور انہوں نے بھی اس بیماری کو سیاسی ڈرامہ قرار دے کر غیر جانبدار اور سچے کھرے صحافی ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔

ایک طرف شریف خاندان کینسر میں مبتلا کلثوم نواز کی بیماری گھر کے باہر احتجاج اور گھیراؤ سے پریشان تھا تو دوسری جانب عدالتوں سے مانگے چار ہفتے کی مہلت کی درخواست بھی رد کر دی گئی اور صرف چار دن دیے گئے کہ عدالت کے روبرو حاضر ہوں۔ جس پر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ہارلے سٹریٹ کلینک کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ باوجود اس کے کہ کچھ لوگوں کے دلوں میں میرے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے میں اپنے عوام کے لئے ہر قربانی دوں گا، انہیں مایوس نہیں کروں گا، گو کہ زندگی کے مشکل ترین وقت سے گزر رہا ہوں۔ یکطرفہ انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ میرے ساتھ احتساب کے نام پر کیا ہوا۔ یہ فیصلہ بھی اسی کمرۂ عدالت میں جج صاحب کی زبان سے سننا چاہتا ہوں جس عدالت میں اپنی بیٹی مریم کے ساتھ سو سے زیادہ پیشیاں بھگتیں۔

ایسے ہی الفاظ کچھ مریم نواز کے بھی تھے کہ تمام تر ریاستی اداروں کو نواز شریف کی دشمنی میں استعمال کر کے عوام کے کروڑوں روپیے لگا کر بھی اربوں روپیے کے منصوبے پاکستان کو دینے والے نواز شریف کو کرپٹ ثابت نہیں کیا جا سکا۔ جو منصوبہ ساز ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ عوام کی طاقت نواز شریف کے ساتھ ہے۔ اگر نواز شریف کو کارکنوں سے دور رکھا گیا تو ان کی تدبیریں الٹی ہو جائیں گی۔ انہوں نے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا، ہر بار الله تعالی نے ان کی چال کو انہی پہ الٹا دیا۔ سب جانتے ہوئے کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے سو سے زیادہ پیشیاں بھگتیں۔ جو کام 70 سالوں سے جاری ہے اسے روکنے کے لئے علم بلند کیا، اب جیل بھی جانا پڑا تو جاؤں گی۔

میاں نواز شریف کے ساتھ ایک گھر میں رہی اور جانتی ہوں کس طرح ایک وزیر اعظم کو جھکنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بات صرف نواز شریف کی نہیں، ان اٹھارہ وزرائے اعظم کی ہے جنھیں آپ نے ووٹ دیے اور ان کی تذلیل کی گئی۔

ایک طرف عدالت متنازع فیصلے سنا رہی تھی اور شریف خاندان پر دباؤ بڑھایا جا رہا تھا تو دوسری طرف انہیں لندن رہنے پر راضی کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں کہ آپ پاکستان واپس نہ آئیں، ہم یقین دلاتے ہیں کہ آپ کے تمام معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

جب نواز شریف کسی طرح کی ڈیل کو تسلیم کرنے سے انکاری نظر آئے تو عدالتوں سے سزا سنوا کر، ڈرا کر انہیں لندن میں ہی رک جانے پر مجبور کرنے کی آخری کوشش کی گئی مگر منصوبہ ساز قوتوں کو اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب میاں نواز شریف نے اپنی بیمار اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ تھامے پاکستان واپسی کا ارادہ کر لیا۔

پھر ہم نے دیکھا کہ 12 جولائی 2018 کو نواز شریف لاہور کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس سفر میں دیگر سینیئر صحافیوں کے ہمراہ میں بھی تھا۔

ابوظہبی ایئرپورٹ پر سات گھنٹے کے قیام کے دوران پھر جہاز میں کئی بار نواز شریف ہم سے مخاطب ہوئے اور لاہور ایئرپورٹ پر سابق وزیر اعظم سے رینجرز کا رویہ کیسا تھا اور ان پر کس طرح کے نفسیاتی حملے کیے گئے، موقع ملا تو پھر آپ کی نظر کروں گا۔

والسلام

سید کوثر کاظمی

مصنف لندن میں نیا دور کے خصوصی نمائندے ہیں، وہ حالات حاضره اور سیاست پر لکھتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں سماء ٹی وی کے بیورو چیف کی حیثیت سے کئی سال خدمات انجام دیں۔ ان کے پاس صحافت کا 20 سالہ تجربہ ہے جس میں کئی روزنامے بھی شامل ہیں۔ سید کوثر عباس کا ٹوئٹر ہینڈل @SyedKousarKazmi ہے اور ان سے kousar.abbas@nayadaur.tv پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔