رانا ثناء ذرا یاد رکھیں جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کوئٹہ میں جلسہ کر رہی تھی تو وہاں لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود تھے۔ مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز لواحقین سے ملیں۔ حسبِ روایات اپوزیشن کے کوڈ آف کنڈکٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت کے خلاف لفظی گولا باری کی۔ لواحقین کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور اپنی حکومت بننے تک مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانی کی۔
فاشسٹ اور سیلیکٹڈ دور اپنے اختتام تک پہنچا۔ ہر طرف نعرے لگے کہ پاکستان میں جمہوریت جیت گئی، آمریت دفن ہو گئی۔ متحدہ اپوزیشن اقتدار میں آئی۔ شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد کچھ امیدیں پیدا ہوئیں لیکن لاپتہ افراد لاپتہ ہی رہے۔
البتہ جس دن آپ نے وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے لاپتہ افراد کی لواحقین سے ثبوت مانگنے کی بات کی، اُس دن اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ حکومت کو لاپتہ افراد کی کیسز میں ملوث ہونے کی سخت ریمارکس جاری فرما رہے تھے۔
بلکہ اُسی دن ایک صحافی نے مریم نواز سے سوال کیا کہ آپ کی حکومت ہے، اس کے باوجود اب آپ لاپتہ افراد کے مسئلہ پر خاموش ہیں۔ ان کا جواب آیا جن کی بازیابی پر میں کیمپ میں بیٹھی تھی وہ سب صحیح سلامت بازیاب ہو چکے ہیں۔ البتہ مریم صاحبہ دین محمد، شبیر بلوچ اور راشد حسین کے لواحقین کے بارے لاعلم تھیں یا ان کو کیمپ میں وہ نظر نہیں آئے یا محترمہ ان کو لاپتہ افراد کی فہرست میں سمجھتی بھی ہیں یا نہیں۔
ڈی چوک میں بیٹھے افراد سے پہلی مرتبہ چیف ایگزیٹو کی طرف سے ملاقات کی کال آئی۔ صاحب نے یقین دہانیاں کرائیں۔ وزیراعظم نے ثبوت کی بات نہیں کی اور نہ ہی ثبوت مانگے۔
اختر مینگل، عمران خان دورِ حکومت میں پانچ ہزار لاپتہ افراد کی فہرست جمع کر چکے ہیں۔ چیک کریں شاید فہرست آج بھی موجود ہو، اگر کسی نے چوری نہیں کی ہے۔
ثبوت کے لیے آپ کے وزیراعظم جن کے ماتحت وزارتِ داخلہ کے انچارج آپ ہیں، کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی مسئلے پر مقتدر حلقوں سے بات کرنے کے لیے کوشاں تھے اور اس مسئلے کو سنگین قرار دے رہے تھے۔ آپ اُن سے بات کریں، شاید ایک دو فہرستیں وہ آپ کو فراہم کرنے میں مدد فراہم کر سکیں۔
اچھا رانا صاحب! پنڈی کے ایرڈ یونیورسٹی کے باہر مٹھی بھر طلبا اپنے ایک جبری لاپتہ ساتھی طالبعلم کے لیے کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ چونکہ آپ نے آئینِ پاکستان پر حلف لیا ہے اس لیے سادہ مشورہ ہے کہ وہاں کا دورہ کریں۔ وہاں ایک گمشدہ طالب علم کا کیس دستیاب ہے اور سینکڑوں طلبہ کی پروفائلنگ اور ہراساں کرنے کے کیسز بھی موجود ہیں۔
رانا صاحب آپ کے مرکزی رہنما دو سال پہلے ڈاکٹر شیریں مزاری کے بل کی گمشدگی پر تنقید کر رہے تھے اور بل کی بازیابی کے لیے اِن ایکشن تھے۔ ذرا ان کے پاس جائیں یا ان کی بیانات دیکھ لیں، شاید آپ کو کچھ نیا مل جائے۔
رانا صاحب، اختر مینگل زندہ لاپتہ افراد کی فہرست جمع کر چکے ہیں۔ آپ اتنے سیانے ہیں کہ اُن کی زندگی اور موت کی ثبوت مانگ رہے ہیں۔ اختر جان کے لواحقین نہیں جانتے کہ ان کو مار دیا گیا ہے یا وہ زندہ ہیں۔ زحمت کرکے ان کو ایک دن اختر جان کے عقوبت خانے لے جائیں تاکہ اُن کا دیدار نصیب بھی ہو سکے۔ نہیں صاحب، آپ تو مسئلہ سے انکاری ہیں، سہولت کاری کی اختیارات آپ کو ویسے بھی ہے نہیں۔ بطور وزیر داخلہ آپ کو اجازت ملے تو تن تنہا جانے کی کمر کس لیں۔
خیر رانا صاحب اتنی زحمت بھی نہ کریں۔ جنہیں ثبوت ملے وہ کچھ نہ کر سکے۔ آپ کیا کریں گے؟ ثبوت کو چھوڑیں، بازیاب نہیں کرا سکتے تو اُن کے لواحقین کا دل نہ دکھائیں اور اپنے سے پہلے آنے والوں کی انجام یاد رکھیں۔
کیمپ کے بائیں جانب دیوار پہرلکھا پایا، صاحبِ تخت وتاج ہم "نابینہ آنکھوں اور بہرے کانوں کو ثبوت فراہم نہیں کر سکتے" جن کی آنکھ آنسو نہ دیکھ سکیں اور کان فریاد نہ سن سکیں۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔