ماحولیاتی تبدیلی نے ہیٹ ویو میں ریکارڈ اضافہ کردیا ہے،سورج کی شعاعیں آگ بن گئیں ہیں جبکہ بھارتی میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق شدید گرمی کی وجہ سے درجہ حرارت نے پچھلے 122 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
مئی کے مہینے میں گرمی کی حالیہ لہر نے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں بھی 60 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔
پاکستان کے شہر خیبر پختونخواہ میں لکی مروت کے دو بڑے ہسپتالوں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سرائے نورنگ اور ڈسٹرکٹ ہسپتال لکی مروت کے ریکارڈ کے مطابق اپریل کے آخری ہفتے سے لیکر 17 مئی تک مریضوں کی تعداد میں 60 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سرائے نورنگ ہسپتال میں میڈیکل سپیشلسٹ محمد جمیل خان نے بتایا کہ لکی مروت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات واضح ہیں، مئی کے مہینے میں جس طرح ہیٹ ویوز نے لوگوں کو متاثر کیا ہے وہ تشویشناک ہے۔
ہسپتال میں ہمارے پاس جو مریض آتے ہیں وہ زیادہ تر گرمی کی شدت کا شکار ہوتے ہیں، یہ مریض ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ زیادہ تر بچے بخار میں مبتلا ہوتے ہیں، بخار یا تو جراثیم ، زخم یا کسی اور وجہ سے بھی ہوسکتا ہے لیکن ان دنوں بڑی وجہ گرمی کی شدت ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ہم اس کو ہیٹ ایگزارشن کہتے ہیں۔ بچوں کا چمڑا چونکہ اتنا مضبوظ نہیں ہوتا اگر وہ کم وقت کیلئے بھی گرمی میں رہے تو ہیٹ ایگزارشن کی طرف چلے جاتے ہیں اور ان کا پسینہ بند ہوجاتا ہے۔ ہم جب ان بچوں کا ٹیسٹ کرواتے ہیں تو 10 میں سے 6 بچے ایسے ہوتے ہیں جو گرمی ہی کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر جمیل نے کہا کہ لوگ مئی کے مہینے میں شدید گرمی کے اثرات سے بے خبر ہیں جو لوگ آتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارا سر چکراتا ہے جب ہم اُنہیں چیک کرتے تو ان کا بلڈ پریشر کم ہوتا ہے وہ ڈی ہائیڈریٹ ہو چکے ہوتے ہیں، آج بھی میرے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں شوگر کی مریض ہوں، لیکن جب ہم نے چیک کیا تو اس کا شوگر لیول ٹھیک تھا البتہ اُن کا بلڈ پریشر 100 سے نیچے تھا اب وہ ہسپتال کے وارڈ میں داخل ہے۔
لکی مروت کے دو بڑے ہسپتالوں کے ریکارڈ سے یہ بات واضح کے کہ پچھلے اپریل اور مئی کے مہینوں میں اس سال گرمی سے متاثر مریضوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ سرائے نورنگ میں ایک میڈیکل سٹور کے مالک میڈیکل پریکٹیشنر محمد رضوان نے بتایا کہ اگر ہم سال 2021 مئی کا موازنہ اس موجودہ مئی سے کریں تو میرے سٹور میں ہم ڈی ہائیڈریشن کیلئے دن میں 5 بندوں کو ڈرپ لگاتے تھے لیکن اس مہینے میں یہ تعداد 25 تک پہنچ چکی ہے۔
جنوبی ایشیا کے درجہ حرارت میں اضافہ
پاکستان میں حالیہ درجہ حرارت میں اضافے نے جہاں پورے ملک میں لوگوں کو پریشان کیاہوا ہے وہاں انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی مارچ سے درجہ حرارت میں اضافے نے لوگوں پر اثرات کیے ہیں۔ اس وقت انڈیا اور پاکستان میں ایک ارب لوگ گرمی کی لہر کا سامنا کر رہے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کا ماننا ہے کے ہیٹ ویو دنیا میں پہلے بھی آتے تھےلیکن کلائمیٹ چینج نے اسکو مزید بڑھا دیا ہے اب دنیا میں ہیٹ ویوز زیادہ تواتر سے آئینگی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ درجہ حرارت کا معمول سے بڑھنا بائیو ڈاورسٹی کو متاثر کر رہا ہے جس سے مختلف وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔
انڈیا کے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ڈیٹا کے مطابق اپریل اور مئی میں درجہ حرارت نے پچھلے 122 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، اسی طرح پاکستان میں محکمہ موسمیات نے بھی اپریل کے آخری ہفتے میں درجہ حرارت میں اضافے نے 61 سال کا ریکارڈ توڑا ہے۔ مئی کے مہینے میں انڈیا راجھستان میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ پاکستان کے جیکب آباد میں 49 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق ایسا ہر گز نہیں ہے کہ پاکستان اور انڈیا میں پہلے 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ نہیں ہوا بلکہ اس دفعہ اپریل اور مئی کے مہینے میں معمول کے درجہ حرات سے زیادہ درجہ حرارت پوری دنیا کیلئے ایک تشویش ناک خبر ہے۔
انڈیا کے کلائیمیٹ سائنس دان پروفیسر ویمل مشرا نے (سی بی ایس نیوز) کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ گرمی کی موجودہ لہر دونوں ممالک کیلئے خطرے کا باعث ہے اور یہ تو صرف ایک جھلک ہے اب دونوں ممالک کو مستقبل میں بھی ایسی صورت حال کا سامنا بار بارکرنا پڑ سکتا ہے۔ پروفیسر نے بتایا کہ انڈیا میں درجہ حرارت میں اضافہ صرف انسانی زندگی پر اثرانداز نہیں ہو رہا بلکہ یہ ملکی معیشت کیلئے بھی تباہ کُن ہے، یہ ایک توانائی کا بحران پیدا کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ماحول کیلئے مختص ادارے انٹر گورمینٹل پینل آن کلائمیٹ چینج ( آئی پی سی سی) کی 2021 اور 2022 میں جاری کردہ رپورٹوں میں سائنس دانوں نے واضح طور پر انسانی سرگرمیوں کی بدولت پیدا ہونے والے بحران کلائمیٹ چینج کے خطرناک اثرات کا ذکر کیا ہے، رپورٹ میں جنوبی اور سنٹرل ایشیا میں شدید موسم اور موسمی واقعیات کا ذکر موجود ہے، اور دنیا کے رہنماؤں کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس گیسیز کے زیادہ اخراج کونہیں روکا گیا اور اس حوالے سے مظبوط پالیسیاں نہیں بنائی گئیں تو دنیا مستقبل قریب میں خطرناک موسمیاتی مسائل سے دوچار ہوگی جس کا حل شاید پھر کسی کے پاس بھی نہیں ہوگا۔
مشرا نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا اور پاکستان میں درجہ حرارت کے بڑھنے کی ایک وجہ کلائمیٹ چینج ہے لیکن دونوں ممالک میں درجہ حرارت کے بڑھنے کے اور بھی عوامل کارفرما ہیں۔ انڈیا اور پاکستان میں توانائی کے ذرائع بھی وجوہات میں شامل ہیں، اس حوالے سے دونوں ممالک کو عملی اقدامت کرنے چاہیئے۔ اُنہوں نے کہا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستان اور انڈیا کو مستقبل میں پانی کی کمی، زرعی معیشت اور توانائی کے بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے۔
پاکستان کے جنوبی اضلاع میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
خیبر پختونخوا محکمہ موسمیات نے اپریل کے آخری ہفتے اور مئی میں معمول کے درجہ حرارت میں 5 سے 9 درجے ڈگری سینٹی گریڈ کی تصدیق کی ہے، لکی مروت میں مئی میں درجہ حرارت 44 سنٹی گریڈ تک ریکارڈ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کرک، ٹانک، ڈی آئی خان اور لکی مروت میں ویسے بھی صوبے کے باقی اضلاع سے درجہ حرارت قدر زیادہ ہوتا ہے۔ ان اضلاع میں 70 فیصد علاقے بارش پر منحصر ہے۔ مارچ سے مئی تک معمول سے زیادہ درجہ حرارت نے ان اضلاع کی زرعی معیشت پر بھی منفی اثرات کیے ہیں۔ لکی مروت کے ایگریکلچر ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ کے ضلعی افسر عبدلاقیوم خان نے بتایا کہ اس سال درجہ حرارت کے بڑھنے سے خاص کر گندم اور چنے کی فصلیں زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
درجہ حرارت زیادہ ہونے سے گندم میں دانے اپنی خوارک پوری نہیں کر سکی اور وقت سے پہلے دانے پک گئے جو ظاہری طور پر کمزور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پھچلے سال بارشیں کم ہوئی تھی اور اس سال بارشیں زیادہ ہوئیں ہیں لیکن وقت پر نہیں ہوئی جس کا کاشتکاروں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُنہوں نے بتایا کہ جنوبی اضلاع کے زیادہ تر کاشتکار بارشوں کے مناسبت سے فصلیں کاشت کرتے ہیں لیکن پھچلے چند سالوں سے زمیندار موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہورے ہیں۔ عبدالقیوم نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سردیوں میں باریشیں کم ہوئی اور خشک سردی جس کی وجہ سے لکی مروت میں امرود اور مالٹے کے باغات سوکھ گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ کاشتکاروں کو موسمیاتی تبدیلی سے آگہی کے حوالے سے محکمے کے پاس کوئی پروگرام موجود نہیں ہے اور نا ہی کلائیمیٹ چینج سے متاثرہ کاشتکاروں اور زمینداروں کو محکمے کی طرف سے کوئی امداد دی جاتی ہے۔
گرمی کی لہر سے کیسے بچا جائے
موجودہ گرمی کی لہر اور لکی مروت کے دو بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ خطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ سرائے نورنگ ہسپتال میں میڈیکل سپشلسٹ ڈاکٹر محمد جمیل نے کہا کہ گرمی کی شدت اگر ایک طرف جسمانی صحت پر اثرا انداز ہوری ہے تو دوسری طرف یہ نفسیاتی مسائل بھی پیدا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ گرمی کی شدت سے متاثرہ لوگوں میں خاص علامات ہوتے ہیں جیسا کہ سر چکرانا، بے ہوش ہونا، اُلجھن کا شکار ہونا، متلی آنا، سر میں درد ہونا، لیکن اسکی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے یہاں کئی لوگ ایسے دیکھے ہیں کہ گرمی کی وجہ سے اُن کی نیند پوری نہیں ہوتی اور اُن کو بات بات پر غصہ بھی آتا ہے جس سے معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر نے گرمی کی شدت سے محفوظ رہنے کے حوالے سے بتایا کہ کوشش کرنی چاہیئے کہ سورج کی تپش سے دور رہیں، دھوپ میں چھتری کا استمعال کیا کریں، وہ لوگ جو کہیں جاب کرتے ہیں یا کاشتکار ہیں وہ اپنے ساتھ چھوٹے کولر میں لیموں پانی جسمیں تھوڑا سا نمک اور چینی ہو پیا کریں، چادر جو ہماری جنوبی اضلاع میں ثقافت کی نشانی ہے اسکو سر پر رکھیں، کالےاور ہرے رنگ کے کپڑوں کا استمعال کم کیا کریں اور سفید رنگ کے کپڑے استمعال کیا کریں، کم از کم دن میں 15 گلاس پانی پیا کریں۔
آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔