پاکستان پیپلز پارٹی اور میڈیا ٹرائل

پاکستان پیپلز پارٹی اور میڈیا ٹرائل
میڈیا ٹرائل کی بات کریں تو سب سے پہلے ذہن میں ایک پارٹی کا نام ابھرتا ہے اور وہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، پیپلز پارٹی کا ہمیشہ میڈیا ٹرائل کیا گیا ہے۔ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں بھی میڈیا نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو نشانے پر رکھا اور آج بھی پیپلز پارٹی کے قائدین نشانے پر ہیں، یوں لگتا ہے جیسے نیوز چینلوں کو ایسا کرنے کے لئے باقاعدہ کہیں سے احکامات ملتے ہیں۔

میڈیا پر جو اینکر اور صحافی حق اور سچ بیان کرتے تھے ان میں سے بہت سے اینکر اور صحافیوں کو نکال دیا گیا ہے۔ سنسر شپ کا بدترین دور چل رہا ہے۔ کچھ ماہ قبل سابق صدر آصف علی زرداری کا ایک انٹرویو بھی نشر کرنے سے روک دیا گیا تھا اور صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں سنسر شپ کی لپیٹ میں ہیں سوائے حکمران جماعت کے مگر یاد رہے آنے والے وقت میں تحریک انصاف کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف میڈیا پر پروپیگنڈا بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پروپیگنڈا کرنے والے چند مخصوص چینلوں کا نام لکھنا بھی ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ کون کون سے نیوز چینل پی ٹی وی والا کردار ادا کر رہے ہیں، باقی میری بات آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔

ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا تو میڈیا نے خبر نشر کی کہ سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی 462 ارب روپے کی کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوگئے ہیں، شرجیل میمن کی گرفتاری پر بھی شور مچایا گیا اور اربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگایا گیا اور جیل میں رکھا گیا مگر کرپشن ثابت نا ہوسکی۔ پیپلز پارٹی کی رہنما، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور سابق وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو کے خلاف بھی نیب نے انکوائری بند کر دی ہے، اس دوران ان شخصیات کا بھی میڈیا ٹرائل کیا گیا اور انہیں بدنام کیا گیا۔ کچھ نیوز چینلز سندھ سے گرفتار ہونے والے ہر دوسرے شخص کو سابق صدر آصف علی زرداری کا فرنٹ مین بتاتے رہے، یہاں تک کہ ماڈل ایان علی کا نام تک سابق صدر کے نام کے ساتھ جوڑا گیا مگر جھوٹ آخر جھوٹ ہوتا ہے۔ آج ڈاکٹر عاصم حسین ضمانت پر ہیں اور نیب ان پر 462 ارب روپے تو دور 462 روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کرسکا۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور انکی ہمشیرہ پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صدر و رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور کو جب منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو تب بھی ان پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگایا گیا اور مسلسل کئی ماہ تک پیپلز پارٹی کا میڈیا ٹرائل کیا گیا جو اب تک جاری ہے مگر آصف علی زرداری پر ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوسکی۔ میڈیا گروپس اور صحافیوں کو نیوٹرل رہنا چاہیے اور صحافتی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، یہاں باقاعدہ طور پر پروپیگنڈا کرنے کے لئے احکامات موصول ہوتے ہیں۔

کچھ روز قبل اے آر وائی نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام لگایا کہ لاڑکانہ میں کتا مار مہم کو روکنے کے احکامات آصفہ بھٹو زرداری کی جانب سے دیئے گئے، مبینہ قیاس آرائیاں پی پی پی قیادت کو بدنام کرنے کے لیے بدنیتی پر مبنی ہے۔ ایسی خبروں سے عوام کے ذہنوں میں کنفیوژن پھیلایا جا رہا ہے جو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہا ہے۔ پروپیگنڈا مشین کے طور پر کام کرنے والے نیوز چینلز کے مالکان اور ان میڈیا گروپس سے وابستہ صحافیوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ کسی بھی جماعت یا سیاسی رہنما کے خلاف پروپیگنڈا مشین بننے کے بجائے صحافتی اصولوں کی پاسداری کریں اور اپنے پیشے سے بددیانتی مت کریں ورنہ آپ لوگوں کا نام تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔

مصنف صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ٹوئٹر پر @UmairSolangiPK کے نام سے لکھتے ہیں۔