میلاد النبیﷺ کے موقع پر ہر سال ہمارے معاشرے میں کئی رسومات ادا کی جاتی ہیں، جن میں بڑی بڑی محافل، میلاد کے جلوس، اور شاندار تزئین و آرائش شامل ہیں۔ یہ سب نیکی کے نام پر کیا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب عمل حقیقتاً رسول اللہﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے؟ کیا ان سب خرچوں کا اسلام کے اس بنیادی پیغام سے کوئی تعلق ہے جو ہمیں غربا، مساکین، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد کا درس دیتا ہے؟
اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج جیسی تعلیمات دین کے بنیادی ستون ہیں، جن کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتا ہے۔ لیکن حقوق العباد، یعنی انسانوں کے درمیان انصاف، سچائی، اور دیانت داری بھی دین کی اہمیت کا بڑا جزو ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بندوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔
اگر کوئی شخص عبادات میں باقاعدہ ہے لیکن لوگوں کے حقوق پامال کرتا ہے، مثلاً جھوٹ بولتا ہے، ناجائز منافع خوری کرتا ہے، یا رشوت لیتا ہے، تو کیا اس کی عبادات قابل قبول ہوں گی؟ نبی کریمﷺ نے حقوق العباد کو نہایت اہم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے حقوق العباد کا حساب کتاب کیا جائے گا۔
میلاد النبیﷺ کے موقع پر بڑے پیمانے پر محافل، جشن، اور شاندار تزئین و آرائش دیکھنے کو ملتی ہے، جنہیں عام طور پر نیکی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ سب کام حقیقتاً دین کی روح کے مطابق ہیں؟ اگر ہم بڑے پیمانے پر میلاد کی محفلیں سجائیں لیکن معاشرتی ذمہ داریوں سے غافل رہیں، تو یہ ہمارے لیے سودمند نہیں ہوگا۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ حقوق العباد کی پامالی کے بغیر عبادت اور نیکی کی کوئی قیمت نہیں۔ اگر ہم میلاد النبیﷺ منانے کے نام پر اسراف کریں، جیسے کہ بڑی بڑی محافل، مہنگے کیک، اور شاندار جلوس، تو ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ آیا ہم نے اپنے حقوق العباد پورے کیے ہیں یا نہیں۔
دین کی اصل تعلیمات پر عمل پیرا ہونا زیادہ اہم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں سے بدعنوانی، جھوٹ، چوری، اور دیگر برائیوں کو ختم کریں۔ مالدار افراد کو چاہیے کہ وہ غربا و مساکین کی مدد کریں، علمائے کرام کی کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی امداد فراہم کریں، اور معاشرتی فلاح و بہبود میں حصہ لیں۔
پنجاب سے ہوتے ہوئے اب پشاور میں بھی ربیع الاول کے دن کو بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے، جس کا مقصد رسول اللہﷺ کی محبت اور تعظیم کو اجاگر کرنا ہے۔ میلاد النبیﷺ کے موقع پر درود و سلام کی تلاوت، محافل میں اسراف سے بچنا، اور رسول اللہﷺ کے مشن کو درست طور پر سمجھنا ہماری عبادات کو حقیقتاً قابل قبول بنا سکتا ہے۔ اس طرح ہم دین کی اصل روح کے مطابق اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اللہ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔