میڈیا میں بھی دو کیمپ بن چکے ہیں۔ ایک وہ جسے یہ لگتا ہے کہ عمران خان صاحب انتہائی کمزور وزیر اعظم ہیں اور جس دن انہوں نے سلیکٹرز سے پنگا لیا اور سیدھے ہوگئے اس دن یہ بھی نواز شریف کی طرح چلتے بنیں گے۔ یہ گروپ لاک ڈاؤن پر حکومت اور مقتدرہ کے درمیان اختافات سے لے کر کئی تعیناتیوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب بظاہر وزیر اعظم سے کسی نے کچھ پوچھنے کی توفیق ہی نہ کی۔ دوسری جانب ایک ایسا گروپ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان ایک مضبوط ترین وزیر اعظم ہیں جن کے خلاف انکو لانے والے بھی کچھ نہیں کر پا رہے۔ یہ لوگ اکثر مقتدرہ کی جانب سے عثمان بزدار کو ہٹانے کی کوششوں کو مثال بنا کر پیش کرتے پیں کہ کیسے عمران خان کی ضد کے آگے سب ہیچ ہیں۔
ایسے میں اب ملک کے با خبر صحافی اعزاز سید نے اپنے ایک کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے اندر بھی ایک چھوٹا سا نواز شریف پیدا ہوچکا ہے جو کہ مقتدرہ کو چلینج کرنے کی خواہش نہ صرف رکھتا ہy بلکہ اس پر عمل کر رہا ہے۔ انکا یہ دعویٰ اہم اس لئےہے کیوںکہ اعزاز سید اکثر تحریک انصاف حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے ہیں گو کہ ان کے کام میں توازن کا تاثر اب بھی قائم ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ دو اور معاملات مختصر طور پر ملاحظہ فرمائیں۔ عمران خان کو ایک طاقتورشخصیت نے براہ راست ملاقات کرکے گزارش کی کہ جناب پنجاب میں عثمان بزدار کو تبدیل کردیںعمران خان نے مذکورہ شخصیت کو بتایا کہ وہ بہترجانتے ہیں کہ کس کو کہاں لگانا اور کس کو کہاں سے ہٹانا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق اس واقعے کے بعد پیغام رسانی کی حد تک وزیراعلیٰ کو ہٹانے کی باتیں کی گئیں تاہم کوئی براہ راست ہدایت موصول نہیں ہوئی۔
اسی لیے وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کے لیے اب نیب میں ایک درخواست دلوا کر ایک سرکاری افسر کو وعدہ معاف گواہ بھی بنا لیا گیا ہے اور ٹی وی چینلز پربیٹھے کئی لوگ وہی راگ الاپ رہے ہیں جس کا انہیں اشارہ کیا گیا ہے۔
بظاہر اوپر بیان کیے گئے واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ واقعات وزیراعظم عمران خان کے طرزحکمرانی کی عکاسی کررہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ عمران خان کے اندر بھی طاقت کو للکارنے والا چھوٹا سا نوازشریف پیدا ہوچکا ہے جو کبھی کھل کر طاقت کوللکارتا ہے تو کبھی مصلحت کے باعث خاموش ہوجاتاہے۔