پاکستان میں موجود سفارتی حلقے اس بات پر قائل ہیں کہ نواز شریف پاکستان کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے کے لیے واحد بہترین آپشن نواز شریف ہیں۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ پاکستان میں موجود سفارتی حلقوں کے خیال میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ پاکستان میں جلد انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات کا سلسلہ رکنا نہیں چاہئیے۔ چونکہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں بھی ہے اور سٹینڈ بائے پروگرام کے پہلے ریویو کے مذاکرات 2 نومبر سے جاری ہیں، ان مذاکرات میں بھی پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا حالانکہ آئی ایم ایف کی شرائط میں یہ شامل نہیں ہے لیکن آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی فنانسنگ اداروں پر مغربی طاقتوں اور امریکہ کا اثر ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ ممالک اپنی شرائط کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔
جب یہ مذاکرات شروع ہوئے، اسی دوران سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 11 فروری 2024 کو انتخابات کروانے کا عندیہ دیا گیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر صدر عارف علوی اور الیکشن کمیشن کے وفد کے درمیاں انتخابات کی تاریخ پر مشاورت ہوئی اور 8 فروری کی حتمی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔
صحافی کا کہنا تھا کہ سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ جب جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائے ایگریمنٹ کیا گیا تھا تب شرائط میں باقاعدہ طور پر تو انتخابات کے بارے میں نہیں لکھا گیا تھا تاہم مغربی طاقتوں کو زبانی کلامی یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ پاکستان میں انتخابات کا عمل مزید تاخیر کا شکار نہیں ہو گا۔ کیونکہ انتخابات میں تاخیر کی صورت میں آئی ایم ایف کی جانب سے قسط نہ ملنے کا حتیٰ کہ آئی ایم ایف پروگرام ختم ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کو یہ پیغام بھی بھیجا گیا تھا کہ فروری یا مارچ تک انتخابات ہونا مناسب ہے لیکن اس سے تاخیر ہونے کی صورت میں دوطرفہ تعلقات متاثر ہوں گے۔
صحافی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کی خواہش ضرور تھی کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں اور موجودہ نگران سیٹ اپ کے دور میں توسیع ہو جائے لیکن وہ اس کے نتائج افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ میری رائے میں تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور پاکستان کے معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔
ممکنہ طور پر سفارتی حلقوں میں اس بات پر بھی چرچا ہوتی ہو گی کہ پاکستان کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا۔ اس حوالے سے اگر زمینی حقائق اور نواز شریف کے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات کو دیکھا جائے تو اس بات پر کسی کو بھی یقین نہیں ہو گا کہ قوی امکان یہی ہے کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ایک بار پھر سے اسٹیبلشمنٹ نواز شریف پر اعتماد کرنے جا رہی ہے۔ لیکن اگر حالیہ پیش رفت کو دیکھا جائے کہ نواز شریف کو پاکستان واپس آتے ہی جس طرح کا پروٹوکول دیا جا رہا ہے، اداروں کی طرف سے جس طرح ان کو سہولیات دی جا رہی ہے تو یہ بھی واضح اشارہ ہے کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو اختلافات تھے وہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کے وزیر اعظم بننے یا نہ بننے کا حتمی فیصلہ تو انتخابات کے بعد ہی سامنے آئے گا تاہم سمجھا جا رہا ہے کہ نواز شریف طاقتور حلقوں کی گڈ بکس میں جگہ بنا چکے ہیں۔
صحافی نے مزید کہا کہ پاکستان میں یا کسی بھی ملک میں موجود سفارتی مشن اس ملک کے معاملات اور سیاست پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، کیونکہ متعلقہ ممالک کے بارے میں اپنے ملک کو بریف کرنا ان کا کام ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اس ملک کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ ان ممالک کے مفاد دیگر ممالک سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان سفارتی مشنز کا بعض موزوں لوگوں کے ساتھ رابطہ رہتا ہے جن سے وہ اطلاعات لیتے رہتے ہیں۔ سفارتی حلقے اس بات پر قائل ہیں کہ نواز شریف پاکستان کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے کے لیے جو واحد بہترین آپشن ہے وہ نواز شریف ہیں۔
بظاہر تو انتخابات کے بعد طے ہو گا کہ اگلا وزیر اعظم کون ہو گا لیکن چونکہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت دیگر ممالک سے ذرا مختلف ہے تو انتخابات سے پہلے ہونے والے مذاکرات اور ڈیلز وغیرہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان سب سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنیں گے۔
سفارتی حلقے چونکہ موزوں لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں تو ان کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے امکان کو کسی صورت بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ انتخابات کے بعد ہی سامنے آئے گا۔