Get Alerts

17 ماہ کی اتحادی حکومت نے سول بالادستی کا جنازہ نکال دیا

شہباز شریف کا دور اقتدار فوج کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ شہباز شریف نے چار بڑے معاملات میں فوج کو مداخلت کے لئے کھلی چھوٹ دے دی جن کے باعث سول آزادیوں اور جمہوری ماحول کی گنجائش تباہ کن حد تک گھٹ کر رہ گئی۔

17 ماہ کی اتحادی حکومت نے سول بالادستی کا جنازہ نکال دیا

عمران خان حکومت کی جانب سے چھوڑے گئے معاشی بحران سے جوجھتے جوجھتے وزیر اعظم شہباز شریف کو بالآخر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے جھکنا پڑا۔ شہباز شریف کی تمام تر توجہ تعمیراتی منصوبوں پر مرکوز رہی جو ان کا ٹریڈ مارک سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کو ملنے والی مالی امداد کو بھی انہوں نے اپنی بڑائی دکھانے کے لیے استعمال کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ایک بکھرے اتحاد کو بغیر کسی ناکامی کے قائم رکھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے بڑی بڑی وزارتیں اپنے پاس رکھیں، خاص طور پر وہ جن کا تعلق ملک کی معیشت سے تھا۔ اس لئے مہنگائی اور معاشی ابتری کی تمام تر ذمہ داری ن لیگ پر عائد ہوتی ہے اور آنے والے عام انتخابات میں پارٹی کے لئے اس کے اثرات نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ سیاسی کردار میں قابل شرم تبدیلی کے بعد پی ڈی ایم اتحاد نے سویلین بالادستی کے اپنے 26 نکاتی ایجنڈے سے منہ پھیر لیا اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے عمران خان کو زبردستی نکالے جانے کے بعد ان کی خالی کی گئی جگہ لے لی۔ پھر سے اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر بننے میں ناکامی کا سامنے کرنے والے عمران خان اب بغیر کسی مقصد کے باغی بن چکے ہیں۔ دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور پاکستان پیپلز پارٹی پھر سے ایک ایسے مضحکہ خیز الیکشن میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں منعقد ہو رہے ہیں۔

شہباز شریف کا دور اقتدار فوج کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ شہباز شریف نے چار بڑے معاملات میں فوج کو مداخلت کے لئے کھلی چھوٹ دے دی جن کے باعث سول آزادیوں اور جمہوری ماحول کی گنجائش تباہ کن حد تک گھٹ کر رہ گئی۔

پہلا مارشل لاء: خصوصی سرمایہ کاری سہولتی کونسل کے قیام کے ذریعے جس میں وفاقی وزارتوں کو نظرانداز کیا گیا اور 18 ویں ترمیم کے تحت ملنے والی صوبائی خودمختاری کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ اس کونسل کے تحت بالائے آئین باڈیز تشکیل دی گئیں جن کے ذمے بیرونی سرمایہ کاری کو کنٹرول کرنا اور معیشت سے متعلق وزارتوں کی نگرانی کرنا شامل ہے۔ ایک مکمل سرکاری ادارے کی جانب سے ون ونڈو آپریشن شروع کیے جانے سے متعلق لوگ باتیں کر رہے ہیں کہ اس سے فوج کو ملک کے تمام قدرتی وسائل، زرعی زمینوں، معدنیات، پانی، بجلی، انرجی، آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کا مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا ہے۔

دوسرا مارشل لاء: جی ایچ کیو کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو ربڑسٹمپ بنا کر اس کی بالادستی کو ختم کر دیا گیا۔ نامکمل کورم کے ساتھ پارلیمنٹ نے ایسے قوانین کی منظوری دی جو آئین کی روح کے منافی ہیں۔ ایسے قوانین میں نگران حکومت کو زیادہ اخیتارات دینا، آرمی ایکٹ میں ترامیم لانا، آفیشل سیکرٹس ایکٹ، ڈیجیٹل میڈیا کا قانون، نجکاری کا قانون اور پیمرا قانون میں ترامیم شامل ہیں۔

تیسرا مارشل لاء: مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری جس سے نئی حلقہ بندیوں تک انتخابات کے التوا کا راستہ ہموار ہو گیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ان کے حامیوں کے خلاف مقدمے درج کر کے جن میں سے بعض حق بجانب ہیں اور بعض یکسر بے بنیاد، اور اپنی پسند کا نگران سیٹ اپ لگا کر انتخابات کی شفافیت کو مشکوک بنا دیا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین پر پابندی لگانے کی کوششیں بھی زور شور سے جاری ہیں۔

چوتھا مارشل لاء: شخصی آزادیوں، آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔

انہی بنیادوں پر شہباز شریف اس اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئے ہیں جن کے پرانے طرف دار ہونے پر وہ فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ گیریژن سٹیٹ کی مرضی کے تمام کام کرنے کے بعد شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے لئے عمران خان، نواز شریف یا مریم نواز اور بلاول بھٹو کے امکانات کو شدید زک پہنچائی ہے۔ اب ملک میں عمران مخالف اور عمران کے حامی دھڑوں کی تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔ اس معرکے میں اگر ایک جانب شہباز شریف نے میثاق جمہوریت اور 'ووٹ کو عزت دو' کے بیانیے کو پش پشت ڈال دیا ہے تو دوسری طرف ایک غیر لبرل پاپولسٹ لیڈر عمران خان ایک بے نتیجہ جنگ لڑتے لڑتے سرنگ کے آخر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس ساری اتھل پتھل میں سب سے زیادہ نقصان جمہوریت اور عوام کا ہوا ہے جنہیں شفاف انتخابات سے محروم کیا جا رہا ہے۔

***

امتیاز عالم کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔