Get Alerts

سیاستدانوں نے ڈر ڈر کر جمہوریت اور سول بالادستی کو مروا دیا

سیاستدانوں نے ڈر ڈر کر جمہوریت اور سول بالادستی کو مروا دیا
آزادی پریس بارے ایک سیمینار میں فواد چوہدری نے مفتاح اسمعیل سے مطالبہ کیا کہ ججز کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں، وہ پنشن پر ٹیکس بھی نہیں دیتے اور فل بنچ کے فیصلے کے ذریعے مراعات بھی لیتے ہیں۔ ان کو ٹیکس لگائیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ آپ کہیں گے کہ ہم نے کیوں نہیں لگایا۔ پھر خود ہی اعتراف کیا کہ شیریں مزاری نے کابینہ میں سوال اٹھایا تھا کہ ججز کو پلاٹ نہیں ملنے چاہیں اور اس بارے قانون سازی کے لئے وزیر قانون کو لکھا گیا مگر انہوں نے تو انکار ہی کردیا اور کہنے لگے کہ میں نے تو روز عدالتوں میں پیش ہونا ہوتا ہے۔ میں کیسے یہ قانون بنوا سکتا ہوں۔

تو یہ حالات ہیں سیاستدانوں کے وہ ڈرتے بھی ہیں اور پھر اپنی لاچاری کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی دوبارہ حکومت بنانے کے لئے عوام سے التماس بھی کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں سچ اگلتے ہیں۔ ایک ہی دفعہ تمام سچ اگل کیوں نہیں دیتے کہ کس کس سے ڈرتے ہیں اور کیا کیا ان کے لئے مشکلات ہیں؟

فواد چوہدری صاحب ابھی بھی وقت گزرا نہیں، وہی اسمبلی چل رہی ہے اور آپ اسمبلی کے ابھی بھی ممبر ہیں۔ ہمت کیجئے اور اسمبلی میں یہ مطالبہ حکومت کے سامنے رکھیے اور اپنی جماعت کی طرف سے پوری حمایت کی پیشکش بھی کیجئے اور بنوا دیجئے یہ قانون۔

سیاستدان کیوں ایک ہی دفعہ سارے خوف قومی مجلس قانون سازی کے سامنے رکھ نہیں دیتے اور سارے اکٹھے ہو کر ان سب کا بندوبست کر نہیں دیتے۔ کیا رکاوٹ ہے ان کے سامنے؟

سیاستدان ہی ہر ایک سے کیوں ڈرتے ہیں۔ کوئی اور ان سے کیوں نہیں ڈرتا۔ ایک جمہوری ریاست کے اندر سب سے بڑا ادارہ جو قوانین کا خالق اور انتظامات اور طاقتوں کا منبہ ہوتا ہے۔ جس کو آئین ریاست کی طاقت سمجھتا ہے اور اس کے ممبر اتنے اختیارات کے باوجود بے بسی کا اظہار کر رہے ہوں تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے۔

سیاستدانوں نے کبھی اس بارے غور کیا ہے؟ یہ سب ان کی ناواقفیت، نااہلی، نااتفاقی، خود اعتمادی کی کمی اور بدعنوانی کی وجہ سے ہے۔ وگرنہ آج اس ملک کا یہی حال ہوتا۔

یہ خود میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ اداروں کے اندر تعیناتیاں اور تبادلے میرٹ سے ہٹ کر کرتے ہیں۔ سیاسی تعلقات اور دوستیاں پالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سرکاری عہدیداروں کو اپنی بدعنوانیوں میں ملوث کرتے ہیں، ان سے کام نکلواتے ہیں۔ جب خود ان کی نظروں میں گر جاتے ہیں تو پھر ان سے عزت کی توقع کرتے ہیں۔

آئین، قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑانے والوں کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ کوئی ماورائے آئین قدم بتا دیجئے جو اٹھایا گیا ہو اور اس میں سیاستدانوں کا ہاتھ نہ ہو یا انہوں نے سہولت کاری مہیا نہ کی ہو۔

کیا انہوں نے ایک دوسرے کو کمزور کرنے اور انتقام لینے میں کمی چھوڑی ہے۔ کیا انہوں نے حکومت کے حصول کے لئے غیر آئینی اقدامات سے فائدے نہیں اٹھائے؟ کیا انہوں نے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ فراہم نہیں کیا؟

کیا انہوں نے جج سیاسی تعلقات کی بنیادوں پر بھرتی نہیں کئے۔ کیا انہوں نے ججوں اور جرنیلوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کا ستیاناس نہیں کیا۔ کیا کچھ انہوں نے نہیں کیا۔ نہیں کیا تو پارلمینٹ کو مضبوط نہیں کیا۔ غیر آئینی اقدامات کا راستہ بند نہیں کیا۔

اب بھی وقت گیا نہیں ہے۔ سب سیاسی جماعتیں مل کر کابینہ کی طاقت سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور میرٹ کے ذریعے اداروں کو مضبوط اور ان کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کو فعال اور انسانی حقوق، جمہوریت، آئین اور قانوں کی حکمرانی کے لئے ایک ہو جائیں اور تہیہ کریں کہ آج کے بعد حکومت ملے یا کبھی بھی نہ ملے، جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دینگے۔

جن کو مشکلات سے گزرنے کا تجربہ ہوتا ہے وہ سنجیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو جمہوریت کی مخالف سوچوں اور قوتوں کو نئے جمورے میسر آ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان خود اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ ان کو ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں ان کو ملک وقوم اور اس کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ قرضے اٹھا کر بھی اپنی اور اپنے حواریوں کی عیاشیوں کا بندوبست کرتے رہتے ہیں۔ جو ان کا اصل کام ہے۔

قانون سازی میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں اور جو ہے وہ بھی اپنے ذاتی مقاصد کی راہیں ہموار کرنے کے لئے۔ کوئی ایسا شعبہ ہے جس میں لوگ بغیر کچھ سیکھے آجاتے ہوں اور بغیر کچھ کئے چلے جاتے ہوں۔ اسمبلی پینگیں ڈالنے اور اداروں کے ساتھ رومانس کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ بہت ہی سنجیدہ ذمہ داری کا کام ہے۔ عوام کے مسائل اور اس بارے اصلاحات اور قانونی سازی کرنی ہوتی ہے۔

کیا سیاستدانوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آئینی مجرموں سے کبھی کوئی سوال کیا ہے۔ کوئی ایسے وقوعے کے بارے ایک ہی کمیشن، اس کی رپورٹ کو پبلک کرنے اور اس پر کارروائی کرکے اپنا ڈر پیدا کیا ہو۔ عوامی بالادستی کی کوئی مثال قائم کی ہو۔ عدالت اصغر خان کیس کا فیصلہ دے چکی ہے۔ نو سال گزر گئے ہیں۔ اسی پر ہی انکوئری اور عمل کر لیا ہوتا۔ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ سیاستدانوں نے ڈر ڈر کر جمہوریت اور سول بالادستی کو مروا دیا ہے۔