Get Alerts

سرفراز بگٹی کو بیوروکریسی کے سامنے بے بسی کا اعتراف کیوں کرنا پڑا؟

وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ میں نے گذشتہ 6 ماہ میں بیوروکریسی کو صوبے کی بہتری کیلئے 332 ہدایات دیں جن میں سے 99 فیصد ابھی تک زیر التوا ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جب میں آپ کو ڈائریکٹیوز دے رہا ہوں تو ان پر عمل درآمد سے آپ کو کون روک رہا ہے۔

سرفراز بگٹی کو بیوروکریسی کے سامنے بے بسی کا اعتراف کیوں کرنا پڑا؟

بلوچستان کی حکومت کو قائم ہوئے پانچ ماہ کا عرصہ بیت گیا مگر صوبائی حکومت بیوروکریسی کو لگام دینے میں بے بس نظر آتی ہے۔ محکمہ تعلیم کے گھوسٹ ملازمین کی برطرفی سمیت وزیر اعلیٰ کے بیش تر احکامات پر پانچ ماہ بعد بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

رواں سال یکم مارچ کو میر سرفراز بگٹی نے 19 ویں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عہدے کا منصب سنبھالتے ہی کوئٹہ شہر کی صفائی کا اعلان کیا تھا۔ اسی حوالے سے پی ڈی ایم اے کو شہر کا کچرہ اٹھانے کیلئے کروڑوں روپے بھی جاری کیے تھے۔ اس کے باوجود شہر میں آج بھی کچرے کے جا بجا ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں۔ کوئٹہ شہر کی صفائی کے حوالے سے حکومتی اعلانات ہوں یا صوبے کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی تعیناتی ہو یا پھر دو ہزار سے زائد گھوسٹ اساتذہ کو ملازمت سے نکالنے کے دبنگ اعلانات، شاید کسی پر بھی عمل ہوا ہو۔ اب تو اس بات کا اعتراف وزیر اعلیٰ بھی برملا کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سرفرازبگٹی نے کہا ہے کہ میں نے تقریباً چھ ماہ میں بیوروکریسی کو صوبے کی بہتری کیلئے 332 ہدایات دیں جن میں سے 99 فیصد ابھی تک زیر التوا ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جب میں آپ کو ڈائریکٹیوز دے رہا ہوں تو آپ کو کون روک رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اور میری کابینہ نے 263 فیصلے کیے، ان میں سے صرف بیس پر عمل ہوا۔ میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ آج تک بلوچستان میں مخلوط حکومت بنی ہے، سنگل لارجسٹ میجارٹی آج تک کسی کو نہیں مل سکی جس کی وجہ سے بلیک میلنگ ہوتی ہیں اور جس کی وجہ سے حکومت اپوزیشن اور مخلوط جماعتوں کے ہاتھوں بہت آسانی سے بلیک میل ہو جاتی ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کا جو کیس ہے ملک کے دوسرے صوبوں سے الگ ہے۔ سکیورٹی اور ڈویلپمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ بلوچستان کو اس وقت امن و امان اور موسمیاتی تبدیلی جیسے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لا اینڈ آرڈر سے بھی سے بڑا چیلنج گورننس ہے۔ ہم سیاست دانوں نے گورننس میں جو کردار ادا کیا اس پر کتابیں لکھی جائیں تو شرم سے ہم پڑھ بھی نہیں سکیں گے، لیکن اس میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ بیورکریسی کا بھی اتنا ہی کردار ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ اس بیڈ گورننس کو میں ایڈمٹ کرتا ہوں کہ میں خود بھی شامل ہوں، سیاستدان بھی شامل ہیں لیکن اس بیڈ گورننس میں بیوروکریسی بھی برابر کی شریک ہے۔ یہاں صرف میرا ڈی سی، میرا کمشنر، میرا ڈی پی او، میرا پی ایس ڈی پی جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈی سی، کمشنر اور پی ایس ڈی پی عوام کے ہوتے ہیں۔ یہ کسی منسٹر یا ایم پی اے کے نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ ڈی سی، کمشنراور بڑے افسران ایم پی اے اور منسٹرز کے پاس جاتے ہیں کہ موجودہ افسر کی سروسز ٹھیک نہیں ہیں، میں زیادہ تابعداری کروں گا۔ وہ اپنے آپ کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ سسٹم کی بہتری کے لئے پورا ایک طریقہ کار ہونا چاہیے اور ہم اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے جو اپنی اصلاحات کے لئے سینیئر افسران کو کمیٹی میں شامل کیا ہے ریفارمز کمیٹی اس سے پہلے بھی کئی دفعہ بنائی گئی تھی لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا، کچھ بھی نہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا بیوروکریسی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے بھرتیاں اتنی آسان کی ہیں کوئی بھی بس بھرتی ہو گا اور تنخواہ وصول کرے گا، بس کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہ رولز آف بزنس میں نے نہیں بنائے، انہوں نے ہی بنائے ہیں۔ بیوروکریسی نے اپنے لیے کسی بھی شخص کو ملازمت سے فارغ کرنا اتنا مشکل کر دیا ہے کہ اب میں بطور وزیر اعلیٰ بھی سی ایم ہاؤس کے ڈرائیور کو ملازمت سے نہیں نکال سکتا۔ اگر وہ صبح مجھے غلطی سے گستاخی کر کے تھپڑ مار دے تو مجھے نکالتے ہوئے 100 دفعہ سوچنا پڑتا ہے۔

میر سرفراز بگٹی نے صوبائی محکمہ لائیواسٹاک کی عمارتوں اور اراضی کو بااثر افراد کے قبضے سے چھڑوانے کے احکامات بھی دیے تھے، مگر مہینوں بعد بھی ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اسی طرح صوبے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے احکامات بھی دیے گئے تھے مگر ابھی تک ہر ضلع میں وزرا اور ایم پی ایز کے من پسند ایس پی تعینات ہیں۔

اس پر اپوزیشن رہنما کے ریمارکس ہیں کہ صوبائی حکومت بے بس ہے۔

گواردر سے منتخب جماعت اسلامی کے رکن اور اپوزیشن ممبر مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت بے بس ہے، بہت سارے فیصلوں سے متعلق صوبائی حکومت اور صوبائی کابینہ کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔ میں نے محسوس بھی کیا ہے، دیکھا بھی ہے اور ان کے الفاظ سے ان کی باتوں سے مجھے بے بسی بالکل واضح طور پر نظر آئی ہے۔ مجھے بھی رحم آیا اس لیے میں نے کافی جگہ سختی بھی نہیں کی تو اپوزیشن کے ساتھیوں سے میری امید ہے کہ اس جدوجہد میں میری تائید بھی کریں گے، ساتھ بھی دیں گے کیونکہ جو فرینڈلی اپوزیشن کے الفاظ ہمارے لیے کم سے کم نہ لگیں۔ ہم بلوچستان کی عوام کی نمائندگی کھل کر کریں۔

اپوزیشن رکن کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت نہیں ہے، انصاف نہ ہونے سے صوبہ میں مایوسی ہے، پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ صوبائی اسمبلی کو عزت دیں گے تو قوم کی عزت ہو گی۔ جب صوبائی اسمبلی، صوبائی کابینہ اور صوبائی وزرا کا ایک وقار ہو گا، بیوروکریسی اپنا کردار ادا کرے گی، انصاف اور مساوات ہو گی تو مسائل حل ہوں گے۔ جب صوبائی اسمبلی اور سیاسی جماعتیں بے بس ہوں اور غیر منتخب، غیر سیاسی لوگ بلوچستان کے فیصلے کریں تو بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

بلوچستان میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ میر سرفراز بگٹی کی سربراہی میں قائم موجودہ صوبائی حکومت کا پہلے روز سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ گڈگورننس کے لیے بھرپور کوشش کی جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں اور ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تا کہ اس کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔

فیروز خان خلجی صحافی ہیں اور ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ وہ جیو نیوز کے کوئٹہ بیورو سے منسلک ہیں۔