Get Alerts

محمد نخشب، جن سے ڈاکٹر علی شریعتی متاثر ہوئے

محمد نخشب، جن سے ڈاکٹر علی شریعتی متاثر ہوئے
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر علی شریعتی وہ پہلے مفکر ہیں جنہوں نے سوشلزم کو تشیع کے رنگ میں پیش کیا۔ لیکن در حقیقت اس معاملے میں پہلکار وہ مفکر ہیں، جن سے ڈاکٹر شریعتی بھی متاثر ہوئے۔ اور وہ محمد نخشب ہیں۔

واقعیت یہ ہے کہ محمد نخشب وہ پہلے مفکر ہیں جو سوشلزم کو تشیع کی اسلامی تعلیمات کی رو سے دیکھتے ہیں۔ محمد نخشب 1302 ہجری شمسی (1926عیسوی) میں تہران میں پیدا ہوئے۔ نخشب نے تہران یونیورسٹی سے گریجویشن اور ماسٹرز کرنے کے بعد یواین کی سکالرشپ پر نیویارک یونیورسٹی سے Administrative Sciences میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نخشب نے 1946 میں حسین راضی، کاظم سامی اور جلال الدین آشتیانی کے ساتھ مل کر "نہضت خداپرستان سوسیالیست (Religious socialist movement) اور حزب مردم ایران (Iranian peoples party) کی بنیاد رکھی۔ نخشب اور ان کے ساتھیوں نے تیل کو قومیانے کی تحریک میں ڈاکٹرمصدق کی حمایت کی تھی۔

19 اگست 1953 ایران کی سیاسی تاریخ کا اہم موڑ ہے جب جنرل فضل اللہ زاہدی کی سرکردگی میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ یہ بٖغاوت امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے انجام پائی۔ امریکیوں نے اس آپریشن کو Operation Ajax کا نام دیا تھا۔ نخشب اپنے ساتھیوں سمیت اس بغاوت میں گرفتار ہوئے اور کچھ عرصہ جیل میں رہے۔ 1958 میں جیل سے رہا ہونے کے بعد امریکہ چلے گئے اور 1976 میں اپنی وفات تک نیویارک میں UN میں خدمات انجام دیتے رہے۔

امریکہ میں قیام کے دوران نخشب نے ڈاکٹر مصطفیٰ چمران، ابراھیم یزدی، علی شایگان اور قطب زادہ کے ساتھ مل کر جبہہ ملی ایران (Iranian National Front) کی بنیاد رکھی۔ امریکہ میں دورانِ قیام نخشب سٹوڈنٹس یونینز میں بھی ایکٹو رہے۔ ایرانین سٹوڈنٹس کنفیڈریشن اور اسلامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تاسیس میں بھی ان کا بنیادی کردار ہے۔

محمد نخشب کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ "مادیت پسندی اور سماج پسندی (یعنی سوشلزم) دو متضاد چیزیں ہیں۔ کیونکہ ایک عادلانہ سماجی نظام قائم کرنے کے لئے جس فدائیت اور ایثار کی ضرورت ہے وہ مادیت پسند نکتہ نظر کی بنیاد پر حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کسی ایسی ہستی پر ایمان رکھتا ہو جو مادہ سے ماورا و بلند ہو۔ یہی ایمان اس کے اندر ایسے اخلاق اور فدائیت کو جنم دے سکتا ہے جس کے بغیر ایک آرمانی/سماجی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔"

نخشب کے فکر و فلسفہ میں اخلاق اور ایمان بنیادی اہمیت رکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ملائی کی مذہبی حکومت کے حامی ہوں۔ وہ ایمان اور مذہب کو سماج کا اخلاقی وجدان قرار دیتے ہیں۔ جو انسانوں کو ایثار و فدائیت، صداقت و امانت، ہمدردی اور انسان دوستی کا پابند بناتا ہے۔ وہ انہی اخلاقیات کی بنیاد پر ایک سوشلسٹ سماج قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں آرتھوڈوکس ٹائپ کے مارکسسٹ تضاد کا شکار ہیں جو فلسفیانہ سطح پر میٹریلسٹ ہیں۔ لیکن اخلاقیات میں آئیڈیلسٹ۔

دوسری طرف نخشب ڈیموکریسی کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ وہ سوویت روس کے ایک پارٹی (One party) سسٹم کے ناقد تھے اور پولر پارٹی سسٹم کے حامی تھے۔ ان کے خیال میں سماج میں متعدد سیاسی پارٹیوں کا ہونا ضروری ہے۔

ڈاکٹر نخشب کو جمہوریت کے دوبارہ احیا کے دوران آیت اللہ کاشانی اور دوسرے مذہبی لیڈروں کے قریب ہونے کا موقع بھی ملا۔ لیکن جب آیت اللہ کاشانی وغیرہ نے ڈاکٹر مصدق کی مخالفت شروع کی تو محمد نخشب اور ان کے ساتھیوں نے ڈاکٹر مصدق کا ساتھ دینا پسند کیا۔ البتہ مذہبی لیڈروں میں سے آیت اللہ طالقانی کے ساتھ ان کے مراسم نسبتاً بہتر رہے۔ آیت اللہ طالقانی خود بھی مغربی سرمایہ داری کے سخت ناقد تھے۔ اگرچہ صحیح معنوں میں ان کو سوشلسٹ قرار دینا مشکل ہے لیکن وہ زمین اور دوسرے قدرتی ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت قرار دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے مخالفین انہیں 'کمیونسٹ آیت اللہ' کہتے تھے۔

سوویت یونین کے عروج کے دنوں میں عام طور پر تمام ملکوں کی سوشلسٹ تنظیمیں اور پارٹیاں کریملن حکومت سے ہی فکری و سماجی طور پر وابستہ ہوتی تھیں۔ ایران میں اس وقت 'تودہ پارٹی' (حزب تودہ) غالب سوشلسٹ پارٹی تھی۔ جو کریملن کے دستورات کی پابند تھی۔ لیکن اس صورتحال میں محمد نخشب سوویت روس کے ریاستی اقدامات کے ناقد بن کر سامنے آتے ہیں۔

نخشب غالباً وہ پہلے ایرانی مفکر ہیں جنہوں نے سوویت روس کےعروج کے دنوں میں جرات سے کہا تھا کہ ہم کریملن اور کمنفورم (Cominform) کے تابع نہیں۔ Cominform جو Communist Information Bureau کا مختصرروسی نام ہے۔ یہ وہ فورم ہے جو تیسری انٹرنیشنل/کمنٹرن Comintern کی تحلیل کے بعد سٹالن نے قائم کیا تھا۔ کمنٹرن یعنی تیسری انٹرنیشنل لینن نے قائم کی تھی۔

نخشب کیپٹلزم کے ساتھ ساتھ سوویت روس کے ریاستی سوشلزم کے بھی شدید ناقد تھے۔ نخشب نے لکھا کہ "مغربی ملکوں میں ڈیموکریسی تو ہے لیکن سماجی ملکیت نہیں۔ جب کہ ماسکو کے سوشلزم میں جمہوریت نہیں۔ یہاں عام لوگ اپنی تقدیر سنوارنے میں کوئی دخل نہیں رکھتے"۔

نخشب بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ معاشی جمہوریت کے بغیر سیاسی جمہوریت ناکارہ ہے۔ جب کہ سیاسی جمہوریت کے بغیر معاشی آزادی بھی ممکن نہیں۔ دوسری طرف مغربی ملکوں کی سیاست پر نخشب تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "مغربی حکومتیں ماسکو پر انسانی اخلاق کی پامالی کا الزام لگاتی ہیں۔ لیکن در حقیقت وہ انسانی حقوق کی پامالی میں دو ہاتھ آگے ہیں۔"

نخشب مغربی حکومتوں کی سامراجی پالیسیوں کے شدید ناقد تھے۔ وہ بجا طور پر یہ کہتے تھے کہ مغرب کے سامراجی ممالک نے تیسری دنیا میں اپنی پسند کے حکمران بٹھا رکھے ہیں۔ جن کی مدد سے وہ ان ملکوں کے وسائل لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ وہ شاہ کی اقتصادی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ہمارے ملک کا سرمایہ بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے اور ملک کی ترقی میں استعمال کرنے کے دوسرے ملکوں کے بینکوں میں پڑا سڑ رہا ہے"۔

نخشب ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کے سخت ناقد اور سماجی ملکیت کے قائل ہیں۔ وہ جابجا ڈائیلیکٹس کے فلسفہ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن وہ خود کو مادیت پسند نہیں بلکہ خدا پرست کہتے ہیں۔ وہ توحیدی سوشلزم کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ عنقریب خدا پرستوں کے سوشلزم کا ڈنکا بجے گا۔ دوسری طرف وہ رجعت پسند مذہبیوں پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں جو سماج کو صدیوں پہلے کے حالات کی طرف لوٹانا چاہتے ہیں۔ وہ 'بشر مادی' کے مقدمے میں لکھتے ہیں۔

شاید تصور شود من می‌خواهم از یک سیستم قدیمی دفاع کنم یا از تحولی که اجتماع ما در آستانه آن است، جلوگیری کنم. بر عکس، نه تنها این‌طور نیست، بلکه نویسنده این حقایق به‌طور جدی و غیرقابل گذشت طرفدار یک تحول عمیق و اساسی سوسیالیستی است"

"ہو سکتا ہے کوئی یہ سمجھے کہ ہمارا سماج جس انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے، میں اس کا مخالف اور قدیم سماج کو واپس لانا چاہتا ہوں۔ ایسا بالکل نہیں بلکہ یہ راقم بڑی شدت کے ساتھ، ایک بنیادی سوشلسٹ انقلاب کو ناگزیر سمجھتا ہے۔"

نخشب لکھتے ہیں کہ "آزادی و جمہوریت کے بغیر عدالت کا حصول ممکن نہیں۔ اور عدالت اجتماعی کے بغیر جمہوریت صرف کاغذ کی حد تک رہ جاتی ہے۔"

اہل تحقیق کا خیال ہے کہ 'زر، زور، تزویر' (دولت، طاقت اور فریب) کی مشہور مثلث جس کا ذکر ڈاکٹر علی شریعتی اپنی تحاریر میں بڑے پرزور انداز میں کرتے رہے، اس کے اصل بانی محمد نخشب ہیں۔

نخشب کی پانچ کتابیں موجود ہیں:

بشرمادی (مادی انسان)، نزاع کلیسا و ماتریالیسم (چرچ اور میٹریلزم کی جنگ)، حزب چیست؟ ( پارٹی کیا ہے؟)، ایران در آستانه یک تحول بزرگ ( ایران، ایک عظیم انقلاب کے دہانے پر)، فرهنگ واژه‌های اجتماعی (معاشرے میں رائج الاستعمال الفاظ کی ڈکشنری)۔

ان کے علاوہ نخشب معیشت کے ساتھ ساتھ ثقافت کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ مسلم ثقافت میں موجود اخلاقی اقدار کو زندہ کرنے کے خواہاں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ رجعت پسند طبقہ مذہب پر قابض ہے جس نے ہمارے سماج کو اخلاقیات سے دور کر رکھا ہے۔ اس طبقے پر تنقید کی وجہ سے ان کی مخالفت بھی ہوئی۔ انہوں نے بھرپور انداز میں سیاسی فعالیت کی۔ لیکن ڈاکٹر علی شریعتی کی طرح انہیں ایران چھوڑنا پڑا۔ وہ امریکہ میں رہ کر بھی ایکٹو رہے۔ اور وہاں قیام کے دوران طلبہ سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ اور جبہہ ملی (نیشنل فرنٹ) کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

وہ ایران کو بادشاہی نظام سے نجات دلانے کے لئے بھرپور کوشاں رہے۔ وہ امریکہ اور دوسرے طاقتور ممالک کی استعماری پالیسیوں کے سخت ناقد تھے۔ وہ ایک قومی سوشلسٹ حکومت کے قائل تھے، جس کا طرز حکومت جمہوری ہو لیکن ذرائع پیداوار، سرمایہ داروں کی بجائے، حکومت کے ہاتھ میں ہوں، جو سرمائے کو عوامی فلاح اور ملکی ترقی کے لئے استعمال کرے۔

اس کے ساتھ وہ مذہب کی بنیادی اخلاقی تعلیمات کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور حضرت محمدؐ اور حضرت علیؑ کی معاشی تعلیمات کو مساوات پر مبنی اور سوشلزم سے ہم آہنگ پاتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد نخشب کی زندگی کے اخلاقی و سماجی پہلو بھی گراں قدر ہیں۔ ڈاکٹر نخشب کسی قریبی عزیز یا ساتھی کے ہاں مہمان بنتے تو ان کا اصرار ہوتا کہ کھانے میں صرف ایک ڈش ہونی چاہیے اور کھانا تیار کرنے میں میزبان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ اس طرح ان کی کوشش ہوتی کہ خاتون خانہ سارا وقت باورچی خانے میں گزارنے کی بجائے فکری گفتگو میں شامل ہو جائے۔ وہ نوجوانوں کی قدر کرتے اور ان کی سوچوں کو بھی اہمیت دینے کے قائل تھے۔

محمد نخشب انٹرنیشنلزم کے بھی حامی تھے۔ وہ لکھتے ہیں "کمیونسٹ انقلاب صرف ایک ملک میں برپا ہونے والا انقلاب نہیں۔ بلکہ ترقی یافتہ ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ میں بیک وقت برپا ہوگا"۔

فریڈریک اینگلز کا خیال تھا کہ انقلاب سب سے پہلے ترقی یافتہ ممالک میں آئے گا۔ لیکن نخشب یہاں لینن کے ہمنوا نظر آتے ہیں۔ نخشب نے لکھا کہ "اس وقت انقلاب کا مرکز تیسری دنیا کے ممالک ہیں۔ کیونکہ سرمایہ داری امپریلزم (سامراجیت) کا روپ دھار چکی ہے اور تیسری دنیا استعمار اور استحصال کا شکار ہے۔ اسی لئے اس وقت یہاں انقلابی تحریکیں زوروں پر ہیں"۔

نخشب بیک وقت ایک مومن، ایک قومیت پسند، ایک جمہوریت پسند، ایک سوشلسٹ، ایک انٹرنیشنلسٹ اور ایک استعمار دشمن شخصیت تھے۔ وہ اپنے نظریے کو آئیڈیلسٹک سوشلزم، اور سائنٹیفک سوشلزم کے بالمقابل "سوسیالیسم تحققی (Realistic Socialism)" کا نام دیتے ہیں۔

مصنف دینی تعلیم کے شعبے سے وابستہ اور حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل ہیں۔ اعجاز نقوی فلسفہ، سائنس اور سماجیات سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک مدرسے میں بطور وائس پرنسپل خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔