ویلینٹائن ڈے کے آس پاس مغرب میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے، شبابیں جو شبابوں سے ملیں، وغیرہ وغیرہ۔ اب اس حوالے سے مشرق میں بھی پھولوں اور خوشبووں کے تبادلے کی روش عام ہو چلی ہے۔ لکھنے والے کے لئے البتہ یہ یقیناً مقام۔ حیرت و شاید عبرت ہو کہ ایسے رنگین سنگین موقعے پر بھی یار لوگوں کو کتابیں (نہ صرف اندازہ کرو بلکہ لو کر لوو گل!) ہی یاد رہیں۔ تم تو کرو ہو صاحبی، حالانکہ صاحبو، بندے میں کچھ رہا ہو نہ ہو، آخرکو یہ مقام تو کتابی چہروں کا بنتا تھا۔ رسمِ دنیا بھی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
12 فروری کی ڈاک سے جناب افضال سید اور محترمہ تنویر انجم کی نودمیدہ کتب نظر نواز ہوئیں۔ سرِ فہرست، خیمہ سیاہ اور امروزِ نارسیدہ میں شامل افضال صاحب کے غزلیہ کلام کی ایک جلد میں یکجائی ہے جو نوجوان ادبی تنظیم کولاج کے حصے میں آئی ہے۔ جبکہ بادہ دوشینہ جسے عکس پبلشرز نے سے بہ مہر کیا، در عقیقت تو سبکِ ہندی کے مسلم الثبوت اور کافر العقیدہ اساتذہ کے کلام سے افضال صاحب ہی کے ترجمہ و انتخاب پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے دیباچہ میں تازہ گوئی کی بساط پر میں میرا بھی ایک شعر رکھا گیا ہے۔ دل کو لازم ہے کہ اس ناز پہ اثبات کرے۔
یہاں یہ غیر ضروری وضاحت البتہ ناگزیر ہے کہ بادہ دوشینہ میں شامل سبکِ ہندی کے اساتذہ کا یہ منتخب کلام، اکثر و بیشتر، ترجمے سمیت کراچی سے ڈاکٹر آصف فرخی کی ادارت میں نکلنے والے مؤقر ادبی رسالے دنیا زاد کے گذشتہ شماروں کی زینت بن چکا ہے۔ ویسے تو جناب اجمل کمال، خیمہ سیاہ میں شامل غزلیں اسی عنوان سے سٹی بک پریس کی کتب خانہ پیپر بیک سیریز میں شایع کر چکے ہیں، پھر یہ اس کلیات کا بھی حصہ بنیں جسے کہنا تو سونے کی کان کہنا چاہیے۔ تاہم ان کی یکجائی پر ادبی ثقافتی تنظیم کولاج مبارک باد کی مستحق ہے، جس کے مبینہ بانیوں مبانیوں میں حماد نیازی، فیضان ہاشمی، عقیل ملک، شاہد بلال، عدنان بشیر، احمد عطا اور ارسلان احمد کے نام نامی ہیں۔
اور اس بات کے آخر میں ایک نہ دو، دس نہ سو، پورے دس لاکھ پرندے! جو کہ عربی نژاد یورپی مصنفہ ایتل عدنان کے فرنچ ناول کو تنویر انجم کا عطا کردہ اردو قالب ہے۔ پِس، اے پِسے ساختیاتی و ما بادے نو آبادیاتی تماش بین، اور اپنے تئیں غنی مت جان کہ شعرے کلا سیک پر طاری روزِ سیاہ کو فکشن کی صارف ماری شبِ روشن نے منور کیا۔ چشمِ مار و شندلے ما شاد
اڑتے ہوے آے یکدم دس لاکھ پرندے
میں نے خود کو میلنائر محسوس کیا
ٹوٹے ہوے پیمانے سے کیا ثابت ہو گا؟
شاعر نے خود کو شاعر محسوس کیا
مذکورہ بالا خود باختہ احساس تفاخر سیفائر نامی سی فائر کے مزید و شدید جام بہ کمال و تمام نکال لے جاتا کہ خیر سے اسی عکس در عکس پبلیشر کا پھیلایا ہوا، ایک اور دام بھی بے دام انعام ہوا۔ ساری رندی کا جاری مَوڈ و مُوڈ ہوا ہُوا۔ طبعِ گراں کو فوری طور پر اقبال و آزاد کے کالج کی فل سنجیدہ فضا، نیم خوابیدہ گویا آبدیدہ آب و ہوا میں ڈھالنا پڑا جو بجائے خود ہماری طرف رواں دواں تھی۔
کوئی پل جاتا ہے کہ ایک نہ ایک صورت حرام و سیرت نیک بایک پر سوار، اوری کے پورے دو عدد شاعر بٹا نقاد، سٹوڈنٹ ضرب استاد نمودار ہوتے ہیں۔ تب تک یہی رکا ہوا تبصرہ چلے گا۔ اتنی اپنی کمی ہوئی محسوس، خود ہی کافی کا کپ بنا لایا۔ اس سے ضامن عباس یاد آیا جو تیسویں جنم دن کی اداسی منانے کل عرصے بعد چلا آیا، ہمیں ہماری از یاد و کار رفتہ شاعری سنائی اور جی بھر کے داد پائی۔ شکستہ مگ سے نئے صبح و شام پیدا کیے اور پتہ نہیں کس طرح دو چار جام پیدا کیے، وغیرہ۔
ان دنوں، رواج ہو چلا ہے کہ ہمارے بچارے چائنہ کے صوفی پی سیوں آواریوں میں رُلتے ڈُلتے ہیں بلکہ بزورِ زر اپنے ہی جشن بھی جنواتے منواتے ہیں اور اس سلسلہ میں جہاں تہاں اُڑتے پھُرتے ہیں۔ تو ایسے میں کسی آل ٹایم گریٹ و جینوین صوفی کی بازیافت پر زور شور ڈالنا یوں ہے جیسے اصلی تے وڈی ہیروں کی تجوری میں سے تھوڑا بہت شعر، بچے کھچے سچ سمیت کھوج نکالنا۔ اندازاً یہی سب کچھ انعام کبیر نے اپنے مقالے میں سرانجام دینے کی سعی مشکور فرمائی ہے۔
اب جو اورینٹل کالج سے کہ عرف خاص میں اوری کہلاتا ہے، دو افراد بہ صنعت مستزاد، عامر صغیر اور انعام کبیر تشریف لائے تو امروز رسیدہ کتابوں کی تعداد تین سے یکلخت چار ہو گئی۔ کبیر کتھا پر متھا گیا عشرہ از بس کہ کتاب کی زینت نہ بن سکا، احباب کی زحمت کا باعث البتہ بنے گا۔ ضرور بنے گا۔ سو یہ رہا
کبیر کتھا
(عشرہ)
ہر دین انہی کی دَین یے، ہر دنیا انہی کو راس
جنہیں راتڑی ہر شبرات ہو ہر دیہاڑی بیساکھ
پر کھیت جنہاں کے سڑ گئے اڑے کھلیانوں میں راکھ
کرے کیا گن وان کی مانتا بچے کیا دھنوان کی ساکھ
کس بل جالم کی ڈور میں، اسے ہوا ہے جب تک راس
نت ڈریں سمے کی کاٹ سے، بڑی مُورتیں جن کے پاس
کس کارن گراں کا آگوا، لوکائی کا وڈکا بن
جا ہر مولے سے کہہ دئیو چل شاوا بندہ بن
یہ باتیں رہیں کبیر سے، رب راکھا، راستے واکھ
کھیالی سے جتنی دیر میں تانگہ پہنچا گرجاکھ