انہوں نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ دوسرے قانون کے تحت سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت اچھالنے کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے۔
https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1494998812003291138?s=20&t=uZfbSbdGd1V3yjFu_qyUqg
خیال رہے کہ وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے بھجوائی گئی سمری کی وزارت قانون نے بھی حمایت کی ہے۔
دستاویز کے مطابق آئین کا آرٹیکل 19 کسی بھی شخص کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، آئین کا آرٹیکل 19 اے بھی عوام کو معلومات کا حق فراہم کرتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 25 تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے مساوی مواقع فراہم کرنے کا حق دیتا ہے، سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی انتخاب میں برابری کا میدان دیا جانا چاہیے۔
دستاویز کے مطابق لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امیدواروں سے پارٹی منشور سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کو عوامی مفاد میں اپنے منشور کی تشہیر کی اجازت ہونی چاہیے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ضروری ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی جائے۔
مجوزہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ منتخب نمائندوں کا مطالبہ رہا ہے کہ متعلقہ حلقوں میں ووٹر سے ملنے اور انہیں اپنے منصوبوں سے آگاہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس لئے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 181 میں نئی جزوی شق کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومتی مجوزہ آرڈیننس میں سیکشن 181 میں کسی بھی لفظ میں ترمیم نہیں کی گئی تاہم سیکشن 181 میں ایک نئی جزوی شق 181 اے شامل کی گئی ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سیکشن 181 کے تحت وزرا اور منتخب رکن پر الیکشن شیڈول کے بعد متعلقہ حلقے میں ترقیاتی اسکیموں کے اعلان پر پابندی برقرار رہے گی تاہم وفاقی کابینہ اور منتخب ارکان انتخابی مہم میں حصہ اور جلسوں سے خطاب کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور پولنگ ایجنٹ کے لیے ضابطہ اخلاق بنا رکھا ہے، ضابطہ اخلاق الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 233 کے تحت بنایا گیا ہے۔
انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت منتخب نمائندوں پر انتخابی مہم میں شرکت کے لیے مختلف پابندیاں عائد ہیں۔