بندیال کورٹ کے سامنے سوال منہ پھاڑے کھڑے ہیں

بندیال کورٹ کے سامنے سوال منہ پھاڑے کھڑے ہیں
ہر چیف جسٹس کے پاس ایشوز کے انتخاب کا موقع ہوتا ہے کہ جن میں ان کی بطور قائد مصروفیت سپریم کورٹ کے لئے سب سے زیادہ اہمیت والے معاملات کا تعین کرتی ہے۔ ان میں کچھ نے بعض دیگر افراد سے بہتر انتخاب کیا ہے۔

بطور سربراہ سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس بندیال کے دور کا آغاز دو یادگار فیصلوں سے ہوتا ہے۔ ایک وہ جو سابقہ چیف جسٹس نے ذمہ داریوں کے آخری دن اور دوسرا وہ جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بندیال عدالت کے اپنے پہلے باقاعدہ روز تحریر کیا۔

یہ عدالتی فیصلے انصاف کی مستحکم بنیاد اور اساس فراہم کرتے ہیں کہ جن کے ذریعے ریاست اور معاشرے کی گہرائی میں موجود رتبے اور طاقت کو چیلنچ کیا جا سکے۔ ایک خاص مزاج کے ساتھ، جو زخموں کے بھرنے اور رابطے استوار کرنے کے لئے موزوں ہے، چیف جسٹس بندیال ہی یہ بیڑا اٹھانے والے جج ہیں۔

چیف جسٹس من اللہ، اور جسٹس محسن اختر کیانی، نے 'نعمان احمد بمقابلہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی' کیس میں فیڈرل گورنمنٹ امپلائز ہائوسنگ اتھارٹی کی جانب سے مذکورہ زمین کے مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر حصول کو غیر قانونی قرار دیا۔

یہ ہائوسنگ اتھارٹی وفاقی قانون کے تحت کام کرتی ہے اور اس کی جانب سے زمین کا حصول چنیدہ افراد کو پلاٹس فراہم کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا۔ یہ چنیدہ افراد میرٹ سے قطع نظر بالعموم وفاقی ملازمین اور ان کے علاوہ کچھ 'خاص' افراد تھے۔ عدالت نے اس عمل کو 'الیٹ کیپچر' اور 'پبلک ویلتھ' کو غصب کرنے سے تعبیر کیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ اسلام آباد کے کئی خاص سیکٹرز میں موجود 50 لاکھ یا اس کے قریب رقم کے عوض الاٹ کیے جانے والے پلاٹس اکثر ایک ارب روپے کی مارکیٹ ویلیو رکھتے ہیں اور فروخت کے لئے اعلانیہ بولی منعقد ہونے کی صورت میں ریاست کو ان پلاٹس کی اتنی ہی قیمت ادا کرنی ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس الاٹیز کو موقع دیا گیا کہ وہ مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت کا فائدہ اٹھائیں۔

دوسری جانب ریاست اور بڑی تعداد میں عوام اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں الاٹمنٹ کی مد میں 300 ارب روپے تک کے نقصان کا شکار ہیں۔ یہ عوام کی محرومی اور پرائیویٹ طور پر حاصل کیے جانے والے فوائد کا وہ سلسلہ ہے جو قانون کی غلط تشریحات کے ذریعے برسوں سے اسی طرح چلا آ رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 'پبلک انٹرسٹ' کے تناظر میں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی ایکٹ، 2020 اور لینڈ اکوزیشن ایکٹ، 1894 کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زمین کے جبری حصول اور دولت بنانے والے تمام افراد کو آڑے ہاتھوں لیا۔

نوازے جانے والوں میں سپریم کورٹ سمیت تمام سطحوں کے جج بھی شامل ہیں، لہٰذا فیصلے میں خود احتسابی اور مفادات سے بلند تر رویے کی گذارش بھی کی گئی ہے۔ چیف جسٹس من اللہ نے اس معاملے کو آسان انداز میں کچھ یوں بیان کیا کہ:

" سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج وفاقی حکومت کے ملازمین نہیں لہٰذا ان کا ایک 'خاص گروپ' کے اراکین کے طور پر پلاٹس کی رعایتی قیمتوں سے مستفید ہونا بلا جواز اور خلافِ قانون ہے۔"

ایسے پلاٹس کی فراہمی اعلٰی عدالتوں کے ججز کی ان مراعات میں شامل نہیں کہ جن کا اطلاق ان کی تعیناتی کی صورت میں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ وفاقی حکومت کے ملازمین بھی اس بات کا کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ انہیں رہائشی پلاٹس مارکیٹ سے بہت کم قیمت ہر الاٹ کیے جائیں۔ اس طرح نوازے جانا ان کے ملازم ہونے کے فوائد کا حصہ نہیں۔

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ اس فیصلےکی منطق کی زد صرف سویلینز پر ہی نہیں پڑتی اور یہ بات پوری وضاحت سے آشکار ہو جاتی ہے کہ چیف جسٹس من اللہ نے پاکستان کے لوگوں کو ان کی زمین کا حق اور اس کی منصفانہ قیمتیں واپس دلانے کا اعادہ کیا۔ معاملہ جلد ہی سپریم کورٹ میں جائے گا، اور اس کے مستقبل کا فیصلہ اس بینچ کی تشکیل سے ہوگا کہ جس کے حوالے معزز چیف جسٹس یہ کیس کریں گے۔

"ایم کیوایم بمقابلہ پاکستان اور دیگر" کیس کے فیصلے، جو اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد اور ججز اعجاز الاحسن اور مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بینچ نے دیا، نے اس طاقتور بہائو سے ٹکر لی جو 2010 کی اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی سے صوبائی اور صوبائی سے مقامی حکومتوں تک ہونے والی سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی منتقلی کے خلاف تھا۔

اٹھارھویں ترمیم نے آئین کے آرٹیکل '140 اے' کو اپنی موجودہ حالت میں متعارف کرایا، جس کے تحت مقامی حکومتوں کو حکومت کا تیسرا بازو بننا ہے جہاں ان کے پاس سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اتھارٹی موجود ہو۔ مںدرجہ بالا آرٹیکل کا واضح مقصد لوگوں کی شنوائی کو ممکن اور ان کی زندگیوں پرفوری اثر ڈالنے والے معاملات کے حوالے سے عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کی سربراہی میں یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی صوبائی حکومتوں نے اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد سے اس صوبائی قانون سازی کو سپانسر کیا جس سے مقامی حکومتیں قائم ہو سکیں۔ جب کہ حقیقت میں وزرا اعلیٰ کی براہ راست گرفت میں موجود ترقیاتی اتھارٹیز کو مالی و انتظامی حوالوں سے مضبوط اور مقامی حکومتوں کو کسی بھی حقیقی طاقت سے محروم رکھا گیا۔

کراچی و لاہور کی ترقیاتی اتھارٹیز اور صوبائی حکومتوں کے ماتحت بلڈنگ کنٹرول، سیویج اور ویسٹ منیجمنٹ سمیت بہت سے شعبوں نے بالخصوص شہری مراکز میں منتخب مقامی حکومتوں کے کرنے کے لئے کچھ خاص باقی نہیں رہنے دیا۔

اسی حوالے سے سپریم کورٹ نے 2015 کے 'ایل ڈی اے بمقابلہ عمرانہ ٹوانہ' کیس، جس میں راقم نے سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کا مدعا رکھا، پر پیشرفت کی۔ 'ایم کیو ایم بمقابلہ پاکستان' کیس کے تحریر کردہ فیصلے میں میونسپل سے متعلق بنیادی امور، جیسا کہ 'لینڈ یوز' کی منصوبہ بندی، کو مقامی حکومتوں کو منتقل نہ کرنے اور ان کے فیصلوں کی تنسیخ کے اختیار کوغیر آئینی قرار دیا۔ مزید یہ کہ صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ پر عمل درآمد کے ذریعے مقامی حکومتوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا بھی حکم دیا گیا۔

'ایم کیو ایم بمقابلہ پاکستان' کیس کا فیصلہ بنیادی جمہوری سطح پر ایک انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اور عین یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔ برسوں کے انجماد کے بعد مقامی حکومت کے انتخابات ہونے کو ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خاص کر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں انتظامی امور کے حوالے سے اس کی تاخیر چاہیں گے۔ رواں سال مقامی حکومتوں کا انتخاب اگلے برس ہونے والے قومی و صوبائی انتخابات کے لئے تمام ممکنات میں ایک 'ٹیل ونڈ' یعنی اسی رخ میں چلنے والی ہوا ثابت ہوگا۔

الیکشن کمیشن کو مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد کرانے کے حوالے سے یقیناً ایک توانا ہدایت درکار ہوگی تاکہ آرٹیکل '140 اے' کے آئینی حکم کو پورا کیا جا سکے، چاہے یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں یا اس کے بغیر۔

بندیال عدالت میں پلاٹس اور انتخابات پرعدالتی جنگوں کے دوران کچھ خواتین و حضرات کے زخم بھی سامنے آئیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ابھی تک اپنے اندر موجود غم و غصے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ یہ اندرونی جذبات بڑھیں گے۔

کسی دن ایک فیکٹری کے سابق ملازمین کی آمد ہوئی جنہیں اپریل 2020 میں کووڈ کی وبا کےعروج کے دوران ملازمت سے مستقل طور پر برخاست کر دیا گیا تھا۔ کچھ ہفتوں بعد انہیں یومیہ اجرت، وہ بھی پنشن کے فوائد کے بغیر، دوبارہ ملازمت کی پیشکش کی گئی۔ ان میں سے کچھ نے تو اسی فیکٹری میں بیس، بیس سال تک کام کیا تھا۔ انہوں نے ملازمت سے مستقل برخاستگی اور نئی شرائط پر دوبارہ ملازمت کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور قانونی جارہ جوئی کا آغاز کر دیا۔

انڈسٹریل ریلیشنز سے متعلق قانون ایک ملازم کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے آغاز سے قبل اپنے ایمپلائر کو ایک 'گریونس نوٹس' دے۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے متعلقہ قانون کی تشریح یوں کی کہ نوٹس ملازم کے وکیل کی جانب سے نہیں بلکہ خود ملازم کی طرف سے دیا جانا ضروری ہے۔ جب دلائل کے دوران بتایا گیا کہ زیادہ تر ملازمین پڑھے لکھے نہیں اور یہ کہ وکیل کی خدمات ان کا بنیادی حق ہے، عدالت نے کہا کہ ناخواندگی کے حوالے سے اپیل لاحاصل ہے اور یہ کہ قانون بنانے والے دراصل وکلا کے ذریعے قانونی مباحثے کی حوصلہ شکنی چاہتے تھے۔

فیکٹری کے ہر ملازم نے 'گریونس نوٹس' کا اجرا اس حوالے سے مدد کے لئے میسر اچھے، نوجوان وکلا کے ذریعے کیا تھا، مگر یہی مدد شاید ان کی قانونی مزاحمت کے خاتمے کا باعث بن جائے۔ عدالت عالیہ کے مطابق ملازمین کی قانون چارہ جوئی غیر موثر 'گریونس نوٹس' کی رو سے ناکام ہوگی، چاہے کیس کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔

اب جب کہ کووڈ کی وبا چھٹ رہی ہے اور نوکری سے محرومی ایک بڑے انسانی مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے، بندیال عدالت کے پاس موقع ہوگا کہ وہ ان دکھی ملازمین کے حقوق کے حوالے سے پھر سے کیس کی جانچ کرے۔ پنشن کے فوائد کا حصول بھی ایک علیحدہ جنگ کا متقاضی ہے۔ سپریم کورٹ کے کم از کم ایک فیصلے میں پنشنز کو اداروں سے متعلق مسئلہ قرار دیا گیا کہ جسے ایمپلائرز نے سلجھانا ہے۔ دیگر فیصلوں میں پنشنز کو 'پروپرائٹی رائٹ' سے تعبیر کیا گیا۔

طبقاتی اور دیگر ناہمواریوں نے قانون کے اس جز پر ایسے نقش چھوڑے ہیں کہ جن کا تعلق معاشرے کے چند کمزور ترین افراد کےحقوق سے ہے۔ اس کی قطع برید ضروری ہے۔ امید ہے کہ بندیال عدالت کی 'فیوچر لیگیسی' تکریم کے ساتھ یاد رکھی جائے گی۔