پچھلے چند دنوں سے تحریک انصاف کے منحرف رہنما سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت پر بہت زیادہ تنقید کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ چند روز قبل جب عمران خان کی قانونی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تو اس کے بعد معروف وکیل فیصل چوہدری کو تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے واٹس ایپ گروپ سے نکال دیا گیا جس کے بعد فواد چوہدری جو فیصل چوہدری کے بڑے بھائی بھی ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت خاص طور پر سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ پر تنقید کے نشتر برسانے شروع کر دیے، جس کا تحریک انصاف کو نقصان ہوا کیونکہ جو کام مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کر رہی تھیں وہی کچھ فواد چوہدری نے شروع کر دیا۔
اگر فواد چوہدری اور سلمان اکرم راجہ کی شخصیت کا موازنہ کیا جائے تو سلمان اکرم راجہ کا قد بہت بلند نظر آتا ہے۔ بطور قانون دان بھی اور ایک نظریاتی سوچ کے حامل انسان کے، جو پختہ سیاسی سوچ رکھتا ہے اور نظریاتی طور پر بھی توانا انسان ہے۔ فواد چوہدری پرویز مشرف کی جماعت سے ملکی سیاسی منظرنامے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے مشرف کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے وہ کچھ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں شرکت کر کے نام بنا چکے تھے۔
پھر اچانک وہ مشرف کا ساتھ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ اب پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جو پرویز مشرف مرحوم کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار سمجھتی تھی۔ فواد چوہدری کی نظریاتی سوچ کیا تھی اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ قاتل کی وکالت کر رہا تھا۔ پھر اچانک مقتول کا وکیل بن گیا اور پھر ایک دن عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے جو زرداری کو سرعام جب چور کہتے تھے تب فواد چوہدری ٹی وی پر بیٹھ کر عمران خان کو ناپختہ سیاست دان کہتا تھا۔
2018 کے الیکشن کے بعد جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو فواد چوہدری کو وزیر اطلاعات لگا دیا گیا۔ اب میڈیا کے حوالے سے فواد چوہدری کا جو تجربہ تھا وہ صرف نیوز چینلز کی حد تک تھا، وہ ٹی وی کو ہی میڈیا سمجھتا تھا۔ فواد نے لاہور میں ایک تقریب میں اخبارات کو ماضی کی صحافت کہا اور ساتھ کہا کہ اخبارات تو اب بند ہو جائیں گے، تمام اخباری صحافیوں کو اپنے روزگار کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان تھا۔ نئی نئی عمران خان کی حکومت کی صحافیوں میں ساکھ بہت خراب ہوئی۔ پھر بطور وفاقی وزیر اطلاعات دو اینکر پرسنز سمیع ابراہیم اور مبشر لقمان پر تشدد کرایا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں کو وقت سے پہلے ختم کرنے کا مشورہ دینے والوں میں بھی فواد چوہدری پیش پیش تھے جبکہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ عمران خان کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ 9 مئی کے بعد جب تحریک انصاف زیر عتاب آئی تو بھاگ کر جہانگیر ترین کی جماعت میں شامل ہو گئے اور سر جھکا کر پچھلی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ اس وقت ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ اور صنم جاوید سمیت تحریک انصاف کی کئی خواتین بہادری سے جیل کاٹ رہی تھیں اور فواد چوہدری پولیس کو دیکھ کر دوڑ لگا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں پناہ لے رہے تھے۔
زیر عتاب تحریک انصاف اور عمران خان پر مقدمات کی بھرمار تھی تو ایسے میں سلمان اکرم راجہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ جبر کے اس ماحول میں عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے۔ سلمان اکرم راجہ بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے نظریاتی انسان ہیں۔ ان کی سوچ عمران خان سے مختلف ہے مگر چونکہ عمران خان ہئیت مقتدرہ کے سیاسی مخالف بن گئے تھے اور ان کی جماعت ریاستی جبر کا شکار تھی ایسے میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سلمان اکرم راجہ عمران خان کا سیاسی اور قانونی دماغ بن گئے۔
میری سلمان اکرم راجہ سے ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ملاقات ہوئی ہے۔ وہ ایک صاحب مطالعہ انسان ہیں، کتابوں کے رسیا ہیں اور بہت قابل قانونی دماغ رکھتے ہیں۔ فواد چوہدری ایک وکیل ہے جیسے سینکڑوں وکیل ہوتے ہیں مگر سلمان اکرم راجہ ایک قانون دان ہیں اور آئین پاکستان پر اتھارٹی ہیں، جبکہ سیاسیات میں سلمان اکرم راجہ کے نظریات تک پہنچ جانا فواد چوہدری کے بس کی بات نہیں۔ وہ موقع پرست انسان ہے جو قاتلوں کا دفاع کرتے کرتے مقتولین کا وکیل بھی بن سکتا ہے۔
اب جبکہ عمران خان نے فیصل چوہدری کی سلمان اکرم راجہ سے صلح کرا دی ہے تو توقع ہے کہ فواد چوہدری بھی خاموش ہو جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیصل چوہدری اپنے بھائی فواد چوہدری سے بہتر وکیل ہے مگر سلمان اکرم راجہ سے جو بھی ان کے اختلافات ہوئے تھے اس پر سلمان اکرم راجہ غلطی پر نہیں ہو سکتے، ضرور فیصل چوہدری سے کچھ غلط ہوا ہو گا۔ لیکن یہ طے ہے کہ فواد چوہدری کی حالیہ بیان بازی نے تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچایا ہے۔