بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی طالبات کیلئے ہائر ایجوکیشن کا سفر نہ صرف ناممکن کے قریب اقدام ہے بلکہ بلوچستان کی ناخواندگی کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
صوبے کی واحد بڑی یونیورسٹی جامعہ بلوچستان کوئٹہ ہے جہاں حالیہ دنوں میں خفیہ کیمروں کے استعمال اور اسکینڈل نے طالبات کے تعلیمی سفر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جہاں اب داخلہ لینا اور رہائش کرنا نہ صرف خود طالبات کے لیے کافی مشکل ہے بلکے والدین کے لیے بھی ذہنی مشکلات اور دشوار گزار فیصلہ ہے۔
کلثوم بلوچ جامعہ کراچی میں ایم فل کی طالبہ اور ایک سوشل ایکٹویسٹ ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ اس دفعہ بلوچستان کی طالبات کے بڑی تعداد میں جامعہ کراچی میں داخلہ لینے کی وجہ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کیس بھی ہوسکتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اب بلوچ والدین اپنے بچیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔
کراچی ایک واحد آپشن ہے جہاں اس سال کے داخلوں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں نے ایک بڑی تعداد میں سیٹیں حاصل کی ہیں مگر جامعہ میں لڑکوں کا ہاسٹل نہ ہونے سے لڑکے تو کہیں نا کہیں کافی مشکلات کے بعد رہائش کا انتظام کر لیتے ہیں مگر لڑکیاں مایوس ہو کر واپس لوٹتی ہیں۔
وقار بلوچ جامعہ کراچی میں بلوچ طالب علموں کے داخلے اور دوسرے تعلیمی مسائل کے حل کے لیے ایک اسٹوڈنٹ ایکٹویسٹ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ "ہم نے طالبات کی رہائش کے لیے ہاسٹلز فارمز جمع کرائے ہیں مگر جامعیہ کی ہاسٹل انتظامیہ فارمز وصول کرنے سے معذرت کر رہے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا ہے کہ جامعہ کی انتظامیہ کے مطابق گزشتہ برس کی طالبات کے ہاسٹل فارمز اب تک پڑے ہیں اور گرلز ہاسٹل میں مزید بچیوں کو رہائش دینے کا کوئی آپشن باقی نہیں ہے۔
انیلہ یوسف بھی جامعہ کراچی میں ایم فل کی طالبہ ہیں جن کا تعلق گوادر سے ہے، وہ کہتی ہیں کہ بلوچ معاشرے میں لڑکیوں کا باہر نکلنا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک بڑی بات ہے اگر ایسے میں ان کی رہائش کا مسئلہ حل نہ ہوا تو مجبورا انہیں واپس جانا پڑے گا جو مزید پسماندگی اور تعلیم سے دوری کی ایک وجہ بنے گی، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ایسے میں آخری امید بلوچستان کی صوبائی حکومت ہے، اگر حکومت بلوچستان نے اس صورت حال میں ان دور دراز کی طالبات کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا خواب محض ایک بے تعبیر خواب ہی بن کر رہ جائے گا.