آج سے تقریباً 20 سال پہلے جب اعظم خان وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ تھے تو انہی دنوں ان کے ایک نوجوان ماتحت یعنی اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ شہاب علی شاہ ان کے بہت قریب آ گئے۔ بعد کے زمانے میں نا صرف خیبر پختونخوا کی سول بیوروکریسی ان دونوں کرداروں کے گرد گھومتی دکھائی دیتی رہی بلکہ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ تک ان کا کردار حیرت انگیز حد تک بڑھتا چلا گیا۔
اور پھر 2013 کے بعد خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اعظم خان پر طاقت اور اثر و رسوخ کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ کمشنر پشاور، سیکرٹری ٹوور ازم، ہوم سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے ہوتے ہوئے وہ صوبے کے چیف سیکرٹری بنے۔ اس دوران وہ دن بہ دن عمران خان کے بھی قریب آتے گئے۔ اعظم خان کے اسی اثر و رسوخ نے نا صرف ان پر بلکہ ان کے تمام ہم پیالہ و ہم نوالہ دوستوں پر طاقتور عہدوں اور دولت و ثروت کے وہ دروازے کھول دیے جس کی طرف جانے والے راستے کرپشن، لاقانونیت اور میرٹ کی پامالی سے ہو کر نکلتے ہیں۔
کچھ عرصہ بعد اعظم خان وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری بن کر اسلام آباد سدھار گئے تو اپنے پرانے ماتحت اور با اعتماد ساتھی شہاب علی شاہ کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری بنا کر تمام وسائل اور اختیارات اس کے ہاتھ میں دے دیے۔ یہی شہاب علی شاہ بعد میں اعظم خان کی وساطت سے پشاور کے کور کمانڈر جنرل فیض حمید کے اس حد تک قریب آئے کہ نا صرف فاٹا ایم پی ایز کا اربوں روپے کا فنڈ ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا بلکہ وزارت خارجہ یا کسی انٹیلی جنس ادارے سے تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی کابل کے دوروں میں اسے ساتھ رکھا جاتا۔
سول بیوروکریسی میں اعظم خان کی قربت حاصل کرنے کے لئے قابلیت یا ایمانداری کے بجائے 'کچھ اور معاملات میں مہارت' حاصل کرنا ضروری تھا۔
مثلاً عباس خان کا بنیادی تعلق سیکرٹریٹ گروپ سے ہے لیکن اعظم خان کا ہم علاقہ ہونے (دونوں کا تعلق مردان سے ہے) کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2018 میں کمشنر افغان ریفیوجز تعینات ہوئے اور اب بھی اسی عہدے پر موجود ہیں۔ عہدہ ہاتھ آتے ہی مکار عباس خان نے اعظم خان اور دوسرے طاقتور لوگوں کی 'کمزوریوں' کو اپنی طاقت بنانا شروع کیا۔
محکمہ افغان ریفیوجز کا سربراہ بنتے ہی بدترین کرپشن اور میرٹ کی پامالی تو ایک طرف، جنسی ہراسانی کے کیسز اس حد تک چلے گئے کہ محکمے کے چیف فنانس افسر عطاء اللہ اور ایک دوسرے افسر اومبڈز پرسن کورٹ کے فیصلے کی رو سے نوکری سے ڈسمس کر دیے گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حال ہی میں محکمہ افغان ریفیوجز کمشنر کی گاڑی 30 کلوگرام منشیات کے ساتھ فیصل آباد میں پکڑی گئی اور یہ سب کچھ میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا۔
عمران حکومت اور اعظم خان کی طاقت ایک ساتھ اختتام کو پہنچے تو نئے منظرنامے سے مولانا فضل الرحمان کی طاقت ابھری۔ اس لئے شہاب علی شاہ اور عباس خان جیسے لوگوں نے مولانا کے بھائیوں کے ساتھ 'معاملات' آگے بڑھائے اور پھر راوی ابھی تک چین ہی چین لکھ رہا ہے۔
یعنی اسی قماش کے افسران اعظم خان کے قریبی ساتھی اور ٹیم ممبرز تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعظم خان کو اس کی سرکشی، تکبر اور انتہائی کرپٹ افسروں پر مشتمل ٹیم لے ڈوبی ورنہ اس کا تعلق مردان کے نواحی علاقے رستم کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا جس کی وجہ سے اس کی تعلیم بھی اعلیٰ درجے کے اداروں میں ہوئی بلکہ سرکاری کام کے حوالے سے وہ انتہائی قابل افسر بھی سمجھے جاتے تھے۔
لیکن طاقت کے حصول اور پیسے کی خواہش نے اس کے اردگرد ایک ایسا ماحول ترتیب دیا جس سے بالآخر بدنامی، بے وفائی اور سلطانی گواہی جیسی غلاظتیں برآمد ہوئیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اعظم خان نے اپنے پیش رو فواد حسن فواد سے طریقہ کار بھی الگ اپنایا اور راستہ بھی الگ چنا۔