الیکشن ترمیمی بل غیرآئینی، سینیٹ کے منظور کرنے پر بھی موقف نہیں بدلے گا، الیکشن کمیشن

الیکشن ترمیمی بل غیرآئینی، سینیٹ کے منظور کرنے پر بھی موقف نہیں بدلے گا، الیکشن کمیشن
انتخابی قوانین میں ترامیم کے سرکاری بل پر الیکشن کمیشن نے آئینی ماہرین اور سیاسی جماعتوں کی آراء طلب کر لیں ،اسلام آباد میں ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 10 جون کو قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے انتخابی قوانین میں ترامیم کے سرکاری بل کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

جمعہ کو حکومت نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا بل سینٹ کو ریفر کر دیا گیاہے اور سینٹ سے بھی اسے منظور کر ایا جائے گا، جبکہ الیکشن کمیشن کے ایک اہم ذریعے نے اس ضمن میں اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ سرکاری بل غیر آئینی ہے اور اگر سینٹ نے بھی اسے پاس کر دیا تو الیکشن کمیشن کا موقف تبدیل نہیں ہو گا۔

ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے اس سارے معاملے کو سیاسی پارٹیوں اور آئینی ماہرین کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سرکاری بل پر سیاستدانوں اور آئینی ماہرین کی آرا ء سے استفادہ کیا جاسکے گا۔

الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں صدر مملکت کو بھی آئینی صورتحال سے واضح کر دیا ہے ،تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے حکومت کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ آئینی طور پر اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی میں حکومت کے سامنے جواب دہ نہیں ۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے وفاقی حکومت کو خط لکھ کر انتخابی اصلاحات پر تحفظات سے آگاہ کردیا۔ الیکشن کمیشن نے وزارت پارلیمانی امورکو بذریعہ خط لکھ کر رابطہ کیا اور  یہ خط سیکرٹری الیکشن کمیشن نے سیکرٹری پارلیمانی امور کو لکھا۔ الیکشن کمیشن نے حکومت کو الیکشن ترمیمی بل پراعتراضات سے تحریری طور آگاہ کیا اور ترامیم کا معاملہ وزیراعظم عمران خان کے نوٹس میں لانے کا مطالبہ کیا۔


الیکشن کمیشن کے خط کے مطابق قومی اسمبلی سے منظورکردہ الیکشن ایکٹ کی کئی شقیں آئین سے متصادم ہیں، آبادی کی بجائے ووٹرز پر حلقہ بندیوں کی تجویز آئین سے متصادم ہے۔ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ ووٹرز لسٹوں کا اختیار آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کا ہے اور مجوزہ الیکشن ایکٹ کی 13 شقیں آئین سے متصادم ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن کی سیکرٹ کی بجائے اوپن ووٹنگ آئین اور سپریم کورٹ کی رائے کےخلاف ہے۔