مولا کا کرم کہیے یا حالات کی ستم ظریفی، انسان سچ بول ہی دیتا ہے۔ لیکن سچ سرکاری ملازم بولے، وہ بھی فارن آفس کا جو کہ پوری دنیا میں وطن عزیز کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے تو سوالات جنم لیتے ہیں۔
قصہ مختصر یوں ہے سابق وزیراعظم نواز شریف مسلسل کسی کیس یا بیانات کی زد میں ہیں۔ موجودہ حملہ سابق سفارت کار اور ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم کا دیا گیا انٹرویو ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف دور میں بھارت کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں تھی۔
معمولی سمجھ بوجھ بھی رکھنے والا شخص اس کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس بیان کا مقصد کیا ہے۔ بھارت کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں تھی تو ہفتہ وار کانفرنس میں ’میرے پاس تم ہو‘ ڈرامے کا جائزہ تو نہیں لیا جاتا۔ کیسی پابندی تھی؟ بھارت کی جانب سے ایل او سی پر فائرنگ کے واقعات کے بعد ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ بلانا اور احتجاج ریکارڈ کروانا کیا تھا؟ بولنے کی اجازت نہ تھی تو دفتر خارجہ کے افسران نے احتجاج کیوں نہ کیا؟ آپ لوگ ریاست کے ملازم تھے نہ کہ نواز شریف کے۔
بھارت، جو کہ دشمن کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے خلاف بولنے سے روکنا اور آپ لوگ چپ، محب وطنی کی نوکری کے بعد، ملک کا خیال ریٹائرمنٹ کے بعد۔
ابھی محترمہ کے بیان پر تبصرے جاری تھے تو ایک اور سابق سفارت کار اور بھارت میں تعینات ہائی کمشنر عبدالبساط کا سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا بیان کہ شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز فون کر کے کہتے تھے کہ ویزہ جاری کرو۔ واہ، کیا بات ہے! اتنی تابعداری وطن کے ساتھ کی ہوتی۔ ملازمت کے دوران حکمرانِ وقت کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا ہوتا وطن کی محبت میں۔
آخرکار وطن کی محبت جاگ گئی۔ وطن کے جانباز باشندوں کی فوج سلام پیش کرے گی اور ملک کے تین دفعہ منتخب وزیراعظم کو غدار مانے گی۔ کیونکہ بھارت کا ذکر ہے۔ لیکن یہ فرض شناسی، حب الوطنی نوکری کے بعد کیوں؟ یا پھر یہ ریٹائرمنٹ کے بعد والی نوکری پکی کرنے کی خاطر ایک محض الزام ہے؟ کیوں کہ ثبوت نہیں مانگے جا سکتے، یہ تو زبانی احکامات تھے۔
دیگر افسران سے التماس ہے کہ قومی جذبے کی امنگوں کا چراغ ابھی سے جگا لیں تو وطن کے لئے سود مند ثابت ہو گا۔