علم سیاسیات اور خاص طور پر بین الاقوامی تعلقات میں ہم دو بنیادی سکول آف تھاٹس پڑھتے آئے ہیں جن کا تعلق ماضی میں جاری بین الاقوامی جنگوں سے ہے۔ ان میں ایک سکول آف تھاٹ کو ’آئیڈیلزم‘ کا نام دیا گیا جب کہ دوسرے سکول آف تھاٹ کو ’ریئل ازم‘۔
آئیڈیلزم یا مثالیت پسندی جنگوں کے خلاف اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل بین الاقوامی سیاست کے فروغ کا درس دیتی ہے۔ اس نظریے کو ماننے والوں نے جنگ عظیم اول کے بعد لیگ آف نیشنز اور جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی تاکہ ان جنگوں میں ہونے والے انسانیت کے قتل عام کو نہ دہرایا جائے اور تمام معاملات کو باہمی اتفاق رائے سے ’ٹیبل ٹاک‘ کے ذریعے حل کیا جائے۔ ان کے مقاصد کس حد تک حاصل ہو سکے ایک مختلف موضوع ہے تاہم اس نظریے نے براہِ راست جنگوں کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری جانب جو نظریہ اس کی ضد یا اس کے برعکس ہے اسے ریئل ازم یا حققیت پسندی کا نام دیا گیا جس کی روح سے کسی بھی ملک کا ’قومی مفاد‘ اس کی ترجیح ہے جس کے حصول کے لئے اس کی اخلاقیات معنی نہیں رکھتیں۔ کوئی بھی ملک یا خطہ ’قومی مفاد‘ کے لئے ایمرجنسی یا مستقل بنیادوں پر اخلاقیات کے تقاضوں کو بالائے طاق بھی رکھ سکتا ہے، اس نظریے کے پاس اس کا جواز بھی ہے اور شاید یہی وہ نظریہ ہے جس نے نہ صرف دنیا بھر میں فسطائی قوتوں کو پیدا کیا بلکہ پوری انسانیت کو ’تیرا اور میرا‘ کی لڑائی میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔
جب ہمیں یہ دونوں نظریات پڑھائے گئے تو بتایا گیا کہ مثالیت پسندی ایک غیر عملی، غیر فطری اور نا قابل عمل نظریہ ہے کیونکہ ہر ریاست کا ’قومی مفاد‘ سب سے برتر اور بالاتر ہے۔ ہمارے بیشتر اساتذہ نے ایک ملک، ایک قوم اور ایک مذہب کے نام پر ہمیں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ’آپ دنیا کی سب سے عظیم قوم ہیں‘ جب کہ باقی تمام (قومیں اور مذاہب) آپ سے ہیچ ہیں، اسی نظریے کو ذہن نشین کرتے ہوئے آپ کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بننا ہے۔ ہمارے اداروں میں مثالیت پسندی کو افسانہ یا ایک خواب بنا کر پیش کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مذہبی رہنماؤں، میڈیا پر گمراہ کن تھمب نیل لگا کر شہرت کمانے والے صحافیوں، مذہب کو استعمال کرنے والے سیاستدانوں اور انتہاء پسندوں نے اسی بنیاد پرعام شہریوں اور نوجوانوں میں دوسرے عقائد، ممالک اور مذاہب کے خلاف نفرتیں پروان چڑھائیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے ’عظیم‘ قوم بننے کے چکر میں ہم دنیا کی سب سے ’مظلوم‘ قوم بن چکے ہیں۔
مسئلہ فلسطین میں اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں کو بھی یہی نظریہ تقویت دیتا ہے اور اسی نظریے جس کی بنیاد انسانیت کی بجائے ’ایک قوم‘، ’ایک مذہب‘، ’ایک نسل‘ ’ایک (خاص) مذہب کی سربلندی‘ یا ’قومی مفاد‘ ہے اس کی مدد سے اسرائیل سادہ لوح فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرتا ہے اور ’ایک مذہبی ریاست‘ کی بنیاد پر فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔
پاکستان اور اسرائیل دو واحد ریاستیں ہیں جو مذہب کی بنیاد پر معرض وجود میں آئیں۔ ان دونوں ممالک کو لگتا ہے کہ ساری دنیا ہمارے مذہب اور شناخت ختم کرنے کے درپے ہے۔ پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور معاشی نظام میں اتنی سکت نہ تھی کہ اس خوف کو بنیاد بنا کر ترقی کر سکے مگر اسی مذہبی سربلندی کے نام پر اسرائیل نے ہر میدان میں ترقی کر لی اور اب وہ حقیقت پسندی یا قومی مفاد کے اصولوں کو بطور جواز پیش کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں پر مظالم کی داستان رقم کر رہا ہے۔
اسرائیل فلسطین میں جو مظالم برپا کئے ہوئے ہے اُسی شدت پسند سوچ کی عکاسی ہے جو مذہب اور عقیدے کی بنا پر انسانوں کے قتل کا جواز پیش کرتی ہے۔ اسرائیل قومی مفاد کے نام پر ’طاقت‘ کی وہ بدنما شکل ہے جو ہر ملک ’مذہبی فوقیت‘ کی بنیاد پر حاصل کرنا چاہتا ہے جب کہ ’طاقت کا نشہ‘ وہ مظالم کرواتا ہے جو اسرائیل فلسطینیوں پر، بھارت کشمیریوں پر، ترکی کردوں پر اور خود پاکستانی ریاست اور اسکے شہری پسماندہ شناختوں اور مذہبی اقلیتوں پر ڈھائے ہوئے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں عظیم قوم، عظیم ملک اور ’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘ کا نعرے لگانے والے اگر اسی بنیاد پر ترقی کر گئے تو اپنے ملک میں ایک دوسرے کو ’کافر کافر‘ کہہ کر قتل کرنے والے ’حقیقی کافروں‘ کا کیا حال کریں گے؟
آج اسرائیل طاقت کی بنیاد پر تمام سامراجی طاقتوں کو اپنے ساتھ ملا چکا ہے۔ آج دنیا کی تمام فسطائی قوتیں جن کے نزدیک ملکی مفاد اخلاقیات اور انسانیت سے برتر ہے، اسرائیلی سفاکی میں شریکِ جرم ہیں۔ امت مسلمہ کی بڑی طاقتیں جن میں متحدہ عرب امارات سر فہرست ہے، نے اسرائیلی بربریت کی مذمت کرنے کی بجائے اس کے مظالم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مسلمان ممالک کے بیچ و بیچ قائم ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کی سفاکی کے خلاف فلسطین کا کوئی ہمسایہ اسلامی ملک اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔
دوسری جانب ان سامراجی ممالک اور دیگر بہت سے ممالک میں حکومتی اور انفرادی سطح پر فلسطین کے لئے بڑے بڑے جلسے جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں شامل ممالک کی بڑی تعداد فلسطین کے لئے آواز بلند کر رہی ہے۔ ان تمام ممالک یا وہاں کے شہری فلسطین کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر ان کے حق کی تائید کر رہے ہیں۔ یہ تمام وہ لوگ ہیں جو اسرائیل کو ایک مذہبی فسطائی ریاست سمجھتے ہوئے استعماریت اور سامراجیت کے خلاف طبل بغاوت بلند کر چکے ہیں اور اگر کوئی مسلمان ریاست یا اسلام کے نام پر کوئی دہشتگرد گروہ اسرائیلی اقدام کی طرح انسانیت کے قتل عام کا جواز بنائے گا تو وہ ان کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہوں گے۔
ادھر ہمارے پاکستانی مسلمان ہیں جو ہر چیز کو ’مذہبی عینک‘ لگا کر دیکھتے ہیں۔ ان کی یکجہتی اور ہمدردی کی تعریف انتہائی تنگ نظر ہے۔ انہیں امریکہ، اسرائیل اور ان ریاستوں کے حواریوں کا مکروہ چہرہ تو ںظر ضرور آتا ہے مگر ان تمام ممالک کے لوگوں کی جانب سے فلسطین اور اسلاموفوبیا کے خلاف بڑھتی ہوئی انسانیت کی آواز کو مذہبی تفریق کی بنا پر یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
وہ تمام لوگ جو اس وقت فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں کسی مخصوص قوم، مذہب یا خطے کی بنیاد پر یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ ایک اجتماعی فلاحی دنیا کے لئے میدان عمل میں آ چکے ہیں۔ وہ قومی مفاد یا بین القوامی سیاست کے فرسودہ حقیقت پسندانہ نظریات کا انکار کرتے ہوئے دنیا بھر میں اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کے حامی ہیں۔
ہمیں بھی ’عظیم قوم‘ ’مسلم امہ‘ ’قومیت‘ اور ’قومی مفاد‘ کی تنگ نظر سوچ اور نظریے سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا۔ صرف مذہب کی بنیاد پر یکجہتی ایک مفاد پرستانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیا میں اگر امن، محبت، سکھ اور چین سے جینا ہے تو ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے ایک ایسا مثالیت پسندانہ بین الاقوامی معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا جہاں قومیت یا ملکی مفاد نہیں بلکہ عالمگیر انسانیت کا مفاد سامنے رکھ کر ایک ایسی پر امن دنیا تشکیل دی جائے جس میں اسرائیل جیسے مفاد پرست اور انسانیت سوز ممالک جنم نہ لے سکیں۔