بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف نرم رویہ اختیار کر لے گی تاہم کچھ روز قبل پی ٹی آئی کے سابق رہنما فرخ حبیب کا منظر عام پر آنا اور انکشافات سے بھرپور بیانات دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاست میں عمران خان کی واپسی ممکن نہیں، انہیں مائنس کر دیا جائے گا۔ سابق سفیر اسد مجید کے بیان کے بعد بہت جلد عمران خان کو سائفر کیس میں بھی سزا سنا دی جائے گی۔ یہ کہنا ہے سینیئر اینکر کامران یوسف کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ 5 اگست کو عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنائی گئی اور گرفتار کر کے اٹک جیل بھیجا گیا لیکن بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یہ سزا معطل کر دی گئی اور انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا لیکن پھر عمران خان کو سائفر کیس میں اٹک جیل میں ہی گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کیس تاحال جاری ہے اور عمران خان جیل میں قید ہیں۔ موجودہ صورت حال کے مطابق عمران خان کے باہر آنے کا کوئی چانس نظر نہیں آ رہا۔ جس تیزی سے سائفر کیس کی کارروائی جاری ہے تو اس تناظر میں انہیں بہت جلد سزا سنا دی جائے تو شاید یہ اچنبھے والی بات نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے ایک بڑی پیش رفت تب سامنے آئی جب مارچ 2022 میں امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر اسد مجید نے سائفر کیس میں عمران خان کے خلاف بیان دیا جس کی تحریری کاپی چالان کے ساتھ خصوصی عدالت میں جمع کروائی گئی ہے۔
فارن سیکرٹری اسد مجید مارچ 2022 میں امریکہ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے جب سفارتی دستاویز 'سائفر' کا پہلی بار ذکر سامنے آیا۔ امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ سفارتی مراسلہ پاکستانی سفیر اسد مجید نے ہی لکھا تھا۔ اسی مراسلے کو بنیاد بنا کر عمران خان نے بیانیہ تخلیق کیا اور انہیں اس بات کا یقین تھا کہ انہیں سازش کر کے حکومت سے نکالا گیا ہے جس میں امریکہ ملوث تھا اور بعد ازاں اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
سابق سفیر اسد مجید نے بیان دیا کہ سائفر بھیجنا بیرون ملک سفارتی مشنز کا معمول ہے۔ اِس خفیہ سائفر میں 'دھمکی' یا 'سازش' جیسے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا، نا ہی میں نے کسی سازش کی موجودگی کے بارے میں کوئی بات کی تھی۔ یہ اسلام آباد میں اُس وقت کی قیادت کی طرف سے اخذ کردہ ایک سیاسی نتیجہ تھا۔
سابق سفیر نے کہا کہ یقینی طور پر اس میں کچھ باتیں ایسی ضرور تھیں کہ جن پر تحریری طور پر احتجاج ریکارڈ کروایا جانا چاہئیے تھا۔ اس پر پاکستان نے جواب میں ڈیمارش جاری کیا۔ صحافی نے کہا کہ اگر بات دھمکی یا سازش کی ہوتی تو ڈیمارش سے بھی آگے جانا چاہئیے تھا لیکن ایسا نہیں تھا۔ کامران یوسف کے مطابق عمران خان کو اس کا سب سے بڑا سیٹ بیک یہ ہوا کہ اسد مجید نے اپنے بیان میں واضح طور پر بتا دیا کہ وہ اس سب کارروائی میں موجود تھے اور انہوں نے کبھی بھی 'دھمکی' یا 'سازش' جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔
اس تمام صورت حال سے لگتا ہے کہ عمران خان کو سائفر کیس میں ضرور سزا دی جائے گی۔ ماضی میں بھی مختلف جماعتوں پر مشکل وقت آتے رہے، اسٹیبلشمنٹ سے ان کی لڑائی رہی لیکن کچھ وقت کے بعد مصالحت بھی ہوئی۔ اس کی ایک واضح مثال 2018 کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات کی ہے۔ ن لیگ کو لگتا ہے کہ اسی وجہ سے 2017 میں سپریم کورٹ سے ان کو نااہل کروایا گیا۔ 2018 میں انتخابات سے کچھ روز قبل احتساب عدالت کی جانب سے انہیں سزا سنائی گئی۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ سب اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کا نتیجہ تھا۔ پھر اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کا 'پیچ اپ' بھی ہوا اور نواز شریف کو علاج کے لیے لندن بھیج دیا گیا۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ یہ ایک سلسلے کی طرح ہے کہ پہلے پریشر آتا ہے اور پھر چیزیں آسان ہوتی چلی جاتی ہیں لیکن عمران خان کے کیس میں نہیں لگتا کہ انہیں آئندہ، جلد یا بدیر، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی ریلیف ملنے کا امکان ہے۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما فرخ حبیب منظر عام پر آئے اور انہوں نے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر وہ جیسے بیانات دے رہے تھے، ان سے ایک بات ظاہر ہے کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان جیل میں ہیں اور پارٹی رہنماؤں کے خلاف جو کریک ڈاؤن چل رہا ہے کچھ وقت کے بعد اسٹیبلشمنٹ نرمی دکھانا شروع کر دے گی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ فرخ حبیب کا منظر عام پر آ کر انکشافات سے بھرپور بیان دینا ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان، پی ٹی آئی اور ان کے حامیوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ ہو رہا ہے اور انہیں کوئی ریلیف نہیں ملنے والا۔
صحافی نے کہا کہ ایسی صورت حال میں صدر عارف علوی کی جانب سے کچھ ملاقاتیں کی گئی ہیں، نگران حکومت بھی سرگرم ہے، لیکن ان تمام ملاقاتوں میں فوکس اسی بات پر ہے کہ عمران خان کو مائنس کر دیا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بطور جماعت انتخابات میں حصہ لینے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن عمران خان پاکستان کی سیاست میں واپس نہیں آئیں گے یا کم از کم آنے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ مستقبل قریب میں عمران خان کے لیے کوئی ریلیف نظر نہیں آ رہا اور نا ہی وہ کم بیک کرتے نظر آ رہے ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق اگر عمران خان الیکشن سے پہلے جیل سے باہر آئیں یا انہیں الیکشن لڑنے دیا جائے تو یہ معجزہ ہی ہو گا۔