ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور اسی سلسلے میں 48 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں موجود امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں نے مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف سے اہم ملاقاتیں کی ہیں جن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ ملاقاتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہیں اور ایک بار پھر سے پاکستان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سے ملک میں بیرون ممالک کے سفارتی حلقے کافی سرگرم ہیں اور اسی سلسے میں پاکستان میں امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کی جانب سے متعدد سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ گذشتہ دو دنوں کے دوران برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ اور امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے نواز شریف سے اہم ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد سے پی ٹی آئی کی جانب سے کافی چیخ و پکار جاری ہے اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ایک بار پھر سے پاکستان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے اور یہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو نکالنے والے چیپٹر کا دوسرا حصہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان بیرونی آقاؤں کے ذریعے نواز شریف کو ایک بار پھر پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بھی کہا گیا ہے کہ امریکی سفیر ایک سزا یافتہ مجرم سے ملے ہیں۔
صحافی کے مطابق یہ تنازعہ تب کھڑا ہوا جب پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ملاقات کے بعد جاری کی گئی پریس ریلیز میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے عوام کو عام انتخابات میں ایک بار مسلم لیگ ن کو موقع دینا چاہئیے تاکہ ملک کو درپیش لاتعداد مسائل اور بحرانوں سے نکالا جا سکے۔ اس بیان کے بعد یہ تنازعہ کھڑا ہوا کہ کیسے کوئی غیر ملکی سفیر کسی ایک پارٹی کے بارے میں جانبدار بیان دے سکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے بیان جاری کیا کہ یہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔ انہوں نے امریکی سفیر سے وضاحت طلب کرتے ہوئے الیکن کمیشن اور دفتر خارجہ سے فوری اقدام لینے کا مطالبہ کیا۔ بعدازاں ن لیگ کی جانب سے نظر ثانی شدہ پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں اس بیان کو نواز شریف کے ساتھ منسوب کر دیا گیا کہ اس امید اور یقین کا اظہار نواز شریف نے کیا ہے۔
صحافی نے کہا کہ کسی بھی ملک میں تعینات سفیر سیاست دانوں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ بہت محتاط ہوتے ہیں۔ ناصرف ایسی ملاقاتوں میں بلکہ کسی نجی محفل میں بھی وہ بہت محتاط ہو کر کوئی بھی بیان دیتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے سفیر اس ضمن میں خاص احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ایسا بیان کبھی نہیں دیتے جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ کسی بھی خاص جماعت کی حمایت کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ایسا چاہتے ضرور ہوں لیکن پھر بھی ایسا بیان نہیں دیتے۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی امریکہ یا برطانیہ کے سفیروں سے ملاقات کے بعد کوئی نہ کوئی پروپیگنڈا ضرور سامنے آتا ہے کیونکہ ماضی میں امریکہ، برطانیہ اور گلف ممالک کا پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں میں کردار رہا ہے۔ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے مابین جب معاملات طے پا رہے تھے تو اس میں بھی امریکہ اور برطانیہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ بعد میں لیک ہونے والی ڈپلومیٹک کیبلز سے بھی یہ باتیں واضح ہوئیں۔ اسی طرح جب جنرل مشرف نے استعفیٰ دیا تو امریکہ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات نے اپنا کردار ادا کیا اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ ان کو ایک محفوظ انخلا ملے۔
صحافی نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں بھی شاید ان ممالک کا کردار ہے لیکن اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو بھی حکومت آتی ہے یا جاتی ہے تو اس کا امریکہ سمیت دیگر اہم ممالک کی پالیسی پر اثر پڑتا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق سفیروں کی ملاقاتیں غیر معمولی بات نہیں۔ چونکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے تو یہ ملاقاتیں اسی تناظر میں کی جا رہی ہیں کہ جب بھی کسی ملک میں انتخابات جیسی بڑی سرگرمی ہوتی ہے تو اس ملک میں تعینات سفیر سیاست دانوں، صحافیوں اور دیگر اہم شخصیات سے ملتے ہیں تاکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ آئندہ منظرنامہ کیا ہو گا۔ برطانیہ اور امریکہ کے سفیروں کی ملاقاتیں بھی اسی تناظر میں ہوئی ہیں۔
امریکی سفیر ناصرف نواز شریف سے ملے ہیں بلکہ جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی سے بھی ان کی ملاقات ہوئی ہے اور عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کے دستیاب رہنماؤں سے بھی ان کی ملاقات ہو گی۔ ملاقاتوں کے حوالے سے امریکی سفارت خانے کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں واضح کیا گیا ہے کہ امریکی سفیر نے صرف نواز شریف سے ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی لیڈرز سے بھی ملاقات کی ہے جس میں پاکستان میں شفاف انتخابات اور آئندہ حکومت کے انتخاب کا اختیار عوام کا ہونے پر زور دیا گیا۔ اس پریس ریلیز میں ایسا کوئی تاثر نہیں دیا گیا کہ امریکی حکومت یا سفیر کی جانب سے کسی خاص جماعت کی حمایت کی جا رہی ہے۔
صحافی نے مزید کہا کہ یہ ملاقاتیں صرف یہ فہم حاصل کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں کہ جو بھی جماعت اقتدار میں آئے گی اس کی دیگر ممالک کے ساتھ پالیسی کیا ہو گی۔ ان کی سیاسی یا معاشی پالیسی کیا ہو گی۔ خطے میں ان کی کیا پالیسی ہو گی۔ جو بھی فیڈ بیک یہ سفیر اپنی حکومتوں کو دیتے ہیں اسی بنیاد پر یہ ممالک اپنی پالیسیوں کو ترتیب دیتے ہیں۔ تاہم ایسا ضرور ہے کہ پاکستان میں موجود سفارتی حلقوں کو یہ سگنلز مل رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے والے ہیں۔ جیسے نواز شریف واپس آئے ہیں اور عمران خان کو سائفر کیس میں سزا ہونے کا چانس ہے جس کی وجہ سے وہ اس بار کے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکیں گے تو اگر ایک ممکنہ وزیر اعظم دکھائی دے رہا ہو تو اہم ممالک کے سفیروں کی کوشش ہو گی کہ وہ ان سے ملاقات ضرور کریں اور ان سے مستقبل کا لائحہ عمل پوچھیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو مختلف معاملات پر ان کی کیا پالیسی ہو گی۔
صحافی نے پی ٹی آئی کی جانب سے پروپیگنڈا کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا تو اس کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کی امریکی اور مغربی ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ شاہ محمود قریشی نے ایک اہم مغربی ملک کے سفیر کی رہائش گاہ پر امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کے سفیروں سے اہم ملاقات کی تھی جس میں بقول تحریک انصاف جو ان کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں ان پر بریف کیا گیا اور ان پر زور دیا کہ ان کی حکومتوں کو چاہئیے کہ وہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ کریں اور تحریک انصاف کے بنیادی حقوق سلب نہ کریں۔
صحافی نے کہا کہ وہ ملاقاتیں بھی اسی طرح نارمل تھیں کیونکہ جب ملکوں میں بڑی سرگرمیاں ہوتی ہیں تو سفارتی حلقوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن جب پی ٹی آئی کے لوگ ان سفیروں سے ملاقاتیں کر رہے تھے تب وہ ملاقاتیں جائز تھیں اور جب یہی سفیر مخالف جماعتوں سے ملاقات کریں تو ان کی نظر میں یہ سیاسی مداخلت ہے۔ مختلف معاملات کو اسی طرح متنارعہ بنانے کی کوشش میں آج پی ٹی آئی اس نہج پر آ پہنچی ہے۔