Get Alerts

کشمیر کی حسین وادی اور خونی دریا

کشمیر کی حسین وادی اور خونی دریا
کشمیر خاموشی سے جل رہا ہے، وہ پکار نہیں سکتا، آواز دے بھی تو کوئی سن نہیں سکتا، ایک عجب سناٹا ہے۔ ماؤں کے لختِ جگر ہوں یا باپ کے بڑھاپے کا سہارا، سب قابض فوج کے زیر اثر ہے۔ عجب منظر ہے، آنکھ بند کرو تو اندھیرا اور کھولو تو خون۔

ہاں! وادی جل رہی ہے اور ہم سو رہے ہے، ہم دعا کر رہے ہے، عملی کام نہیں۔ ہم سات دہائیوں سے نعرہ لگا رہے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان لیکن جب وقت آیا، ظلم کی تاریک رات آئی، کشمیریوں کی آواز بندی ہوئی۔ تو، ہم جا پہنچے اقوام عالم یا مسلم امہ کے پاس۔ جہاں پیسے اور مفادات کا سودا ہوتا ہے۔ وہ دنیا جہاں انسان کی زندگی کی اہمیت نہیں، خون کی ہولی کھیلنے کو سراہا جاتا ہے۔ کیا ہمیں معلوم نہیں شام، یمن، عراق، افغانستان، لیبیا، فلسطین میں کیا کچھ ہوا۔ نسلیں تباہ ہو گئیں، لیکن مفادات کو نقصان نہ پہنچا۔

کشمیری سوال کرتے ہیں کہ خونی رات کا خاتمہ کب ہو گا؟ جنت نظیر وادی میں خوشی کے شادیانے کب سنائی دیں گے؟ کب ماں، بہن، بیٹی کی عزت کا تحفظ ہو گا؟ وہ اندھیری رات جس میں خوف نہیں سکون ہو۔

وادی پکار رہی ہے، دیکھ رہی ہے۔ کہ کب مسیحا آئے اور حالات کا رخ بدلے۔ ہمیں 70 برس ہو گے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے، ہم کبھی تھکے نہیں، ہمت میں کمی نہیں آئی۔ سوال ہے میرا پاکستانیوں سے کہ تم کیوں ہمت ہار گئے ہو؟ ابھی تو دشمن سے مقابلہ کرنے کا وقت آیا ہے۔ مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جو عالمی برادری میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ وہ دشمن جس نے شہ رگ پر حملہ کیا ہے۔ اس جگہ حملہ کیا ہے جہاں انسان کا جسم مفلوج ہو جاتا ہے، جسم کے حرکت کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ آخر کرنا کیا ہے؟ سوال پھر سے وہی ہے، کیسے حق خودارادیت کی جنگ لڑی جائے گی؟

یا پھر بس! ہمارے مقدر کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ وہی زندگی، خون، اندھیرا، وہی نعرہ "لے کر رہیں گے آزادی"، "کشمیر بنے گا پاکستان"۔