سولہویں امریکی صدر اور امریکہ میں نسل پرستی کے خاتمے کے سب سے بڑے علمبردار ابراہام لنکن 12 فروری 1809 کو سخت سردی کے موسم میں امریکی سرحد پر واقعہ ریاست کنیٹکی کے علاقے ساؤتھ فورک نولن کریک میں ٹام لنکن اور نینسی لنکن کے ہاں ایک کمرے کے خستہ حال، کیبن نما مکان میں پیدا ہوئے۔ ڈینس ہنکس جو کہ لنکن کا چچا زاد تھا۔ اس کے مطابق اس ایک کمرے کے خستہ حال کیبن کو مکان کہنا بھی مکان کی توہین تھی۔ ابراہام لنکن کے علاوہ امریکہ کے اور بھی بہت صدور گزرے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایب لنکن کا ذکر اتنے زور و شور سے کیوں کیا جاتا ہے اور کس وجہ سے وه اتنے مشہور جاتے ہیں کہ لوگ اپنے کلام میں اس کا حوالہ تک دیتے ہیں؟ یہ آج کے میرے بلاگ کا مطمہِ نظر ہوگا۔ لیکن، اس سے پہلے ہم ایب لنکن کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں کہ وه کون سے ایسے عناصر تھے کہ جنہوں نے ایک خانہ بدوش اور معمولی کسان کے بیٹے کو کیبن سے اٹھا کر وائٹ ہاؤس تک پہنچایا۔
یقینًا ایب لنکن کی کہانی بہت دلچسپ اور موٹیویشن سے بھر پور ہے۔ دلکش شخصیت کے مالک ایب لنکن کا بچپن، لڑکپن اور کچھ حد تک جوانی بھی، سخت مصیبتوں، اذیّتوں اور مشکلات سے دوچار رہی۔ ان ہی مصیبتوں اور مشکلات سے نکل کر ایب لنکن وائٹ ہاؤس تک پہنچے۔ ایب کے والد ٹام لنکن خانہ بدوش تھے کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ گھر آباد کرتے۔ جس سے ایب لنکن کی تربیت کافی حد تک متاثر رہی اور وه روایتی تعلیم سے بہت دور رہے۔ ایب لنکن کی روایتی تعلم اتنی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ساری زندگی ان کے سرہانے ایک نہ ایک کتاب ضرور ہوتی تھی۔ جس سے آپ ایب لنکن کی تعلم سے محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے کے علاوہ ایب کو تقریر سے بھی بڑا شغف تھا۔ وہ اکثر اپنے والد کے ساتھ کھیت میں کام پر ہوتے تھے تو اس دوران اچانک ہی کس اونچی جگہ پر چڑھ کر تقریر کرنے لگ جاتے اور سیاست دانوں کی نقلیں اتارنے لگتے جس سے آس پاس کے کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ خوب محظوظ ہوتے۔ ایب کی یہ تقریریں جو کھیتوں سے شروع ہوئیں وہ وائٹ ہاؤس میں جا کر ختم ہوئیں۔
ٹام لنکن ایک خانہ بدوش تھے، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا۔ اسی خانہ بدوشی کے سلسلے میں ٹام لنکن نے پہلے کنیٹکی سے انڈیانا کی طرف ہجرت کی اور پھر انڈیانا سے اِلّی نوائے کی طرف ہجرت کرنے والے تھے کہ اس وقت ایب لنکن کی عمر 21 سال ہو چکی تھی۔ امریکی قانون میں 21 سالہ فرد بالغ قرار دیے جاتے تھے اور انہیں آزادی ہوتی تھی کہ جہاں چاہیں جائیں اور جو جی چاہے کریں۔ لہٰذا، 21 سال پورے ہونے پر ایب لنکن نے اپنا مستقبل خود بنانے کی ٹھان لی اور 1831 کے بلکل آخری دنوں میں وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے نیو سیلم پہنچے۔ نیو سیلم کے 6 سالہ قیام نے ان کی زندگی بدل کے رکھ دی۔ نیو سیلم نے ایب لنکن کو ایک ایسی پلیٹ فارم مہیا کیا جس پر جا کر ایب نے وائٹ ہاؤس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
نیو سیلم میں ایب لنکن نے سب سے پہلا جو کام شروع کیا وہ ایک تاجر ڈینئن آفٹ کی دوکان پر منشی گیری تھی۔ ایب کی اعلیٰ ظرفی اور اعتدال پسندی کی وجہ سے نیو سیلم میں پہلے 7 مہینوں میں ہی ان کا دائرہ احباب بہت وسیع ہو گیا تھا۔ احباب کے ساتھ اس کا حلقہ اثر بھی بڑھا اور انہوں نے 1832 میں مقامی مجلسِ قانون ساز کے انتخابات میں کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ ایب نے اپنا منشور عوام کے سامنے رکھا اور اس پر من و عن عمل کرنے کا وعدہ کیا لیکن اس دوران ہی نیو سیلم کے مضافات میں " بلیک ہاک" کی لڑائی شروع ہو گئی۔ ایب کو رضاکاروں کے ایک دستہ کا سردار منتخب کر لیا گیا۔ بلیک ہاک کی لڑائی کے بعد ایب دوبارہ نیو سیلم واپس آگئے اور اس بار اپنی مقبولیت کو دیکھ کر سٹیٹ لیجسلیچر میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور بری طرح ہار گئے۔ البتہ نیو سیلم کے علاقے میں انہوں نے کلین سویپ کیا اور 277 ووٹ حاصل کیے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ نیو سیلم میں سب سے زیادہ مقبول آدمی کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ لیکن، پورے سٹیٹ میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے مزید محنت کی ضرورت تھی۔ ایب سٹور کیپر سے سمندر کے کنارے کشتیوں کی نگہبان بنے، نگہبانی سے پوسٹ ماسٹر اور پوسٹ ماسٹر سے پھر وکالت کی تعلیم کی طرف۔ ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایب نے سیاست جاری رکھی۔
1934 میں ایک مرتبہ پھر وہ سٹیٹ لیجسلیچر کے انتخاب کے لئے کھڑے اور کامیاب ہونے کے بعد 8 سال تک رُکن رہے۔ ان 8 سالوں میں ایب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے الّی نوائے کا صدر مقام ونڈیلیا سے تبدیل کر کے اسپرنگ فیلڈ کے مقام (جہاں وہ 1837 میں نیو سیلم سے جانے کے بعد رہائش پذیر رہیں) پر تبدیل کرا لیا۔
1837 میں ابراہام لنکن نے نیو سیلم سے اسپرنگ فیلڈ جانے کا فیصلہ کیا۔ اسپرنگ فیلڈ جاتے وقت ایب 28 سال کے ہو چکے تھے۔ اسپرنگ فیلڈ جانے کے دو وجوہات تھیں، ایک یہ کہ ایب نے الّی نوائے کا صدر مقام ونڈیلیا سے اسپرنگ فیلڈ تبدیل کر دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ اسپرنگ فیلڈ میں وکالت کے بہترین مواقع موجود تھے۔
اسپرنگ فیلڈ میں ایب نے وکالت میں تین شریکِ کار بنائے، پہلا جان ٹی اسٹوارٹ، جو وکالت میں ایب کا استاد بھی تھا۔ دوسرا اسٹیفن ٹی لوگن اور تیسرا شریک بلی ہرن ڈن۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان تینوں نے لنکن کو ایک کامیاب وکیل اور بعد میں ایک کامیاب سیاست دان بنایا تو یہ کہنا بلکل درست ہوگا۔ اسٹوارٹ اور لوگن کے ساتھ ایب بہت کم عرصہ رہے۔ لیکن ہرن اور ایب کا تعلق آخری سانس تک رہا۔
اسپرنگ فیلڈ میں ایب کی زندگی کچھ ٹریک پر آ چکی تھی۔ لہٰذا، ایب نے اپنی زندگی کی دوسری اننگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ سٹیٹ لیجسلیچر میں 8 سال کی رکنیت کے بعد اسے یہ خیال ہونے لگا کہ اب اسے کانگریس کا ممبر منتخب ہونا چاہیے۔ 1843 اور 1845 میں ناکامی کے بعد 1847 میں ایب کانگریس کے رُکن بن گئے۔
1855 میں وہ پہلی بار امریکی سینیٹ کے انتخابات کے لئے کھڑے ہوئے۔ لیکن الّی نوائے کے حلقہ کی وجہ سے ایب کو انتخابات میں شکست ہوئی۔ اس دوران وھگ پارٹی میں اختلافات پیدا ہوگئے اور ان اختلافات کا نتیجہ وھگ پارٹی کے خاتمہ کی صورت میں نکلا۔ یہاں سے ایک نئی پارٹی نے جنم لیا۔ یہ ری پبلکن کہلاتے اور غلامی کے شدید مخالف تھے۔ لنکن اور ری پبلکن کے خیالات آپس میں ملتے تھے۔ لہٰذا، لنکن نے اس نئی پارٹی میں شمولیت کی اور 1856 میں الّی نوائے میں ری پبلکن پارٹی کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اب لنکن جہاں بھی جاتے اور تقریر کرنے لگتے تو تقریر میں یہ جملہ ایب کا تکیہ کلام ہوتا کہ "آدھا ملک غلام، آدھا ملک آزاد" یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم نے غلامی کے اس زنجیر کو توڑنا ہے۔
ایب کی مقبولیت، ذہانت، اعتدال پسندی اور قابلیت کو دیکھ کر پارٹی نے انہیں 1860 کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنا امیدوار نامزد کردیا۔ نومبر 1860 کو صدارتی انتخابات ہوئے اور لنکن کامیاب ہوگئے۔ یوں ایک خانہ بدوش اور معمولی کسان ٹام لنکن کا بیٹا ایب لنکن جو لکڑی کے ایک معمولی کیبن میں پیدا ہوا تھا ملک کا صدر بن گیا۔
ابراہام لنکن 1861 سے لیکر 1865 تک امریکی صدر رہیں۔ لنکن اپنے بل بوتے پر غربت، جہالت اور گمنامی کی زندگی سے نکل کر ایک عظیم رہنما کے درجے تک پہنچے۔
اب آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بچہ جو کیبن میں آنکھ کھولے صدارت جیسے عظیم منصب تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ پاکستان اور امریکہ میں یہی فرق ہے کہ وہاں کیبن کا بچہ وائٹ ہاؤس تک جا سکتا ہے اور یہاں؟ آپ مجھ سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔
اللہ سے یہی دعا ہے کہ ہمارے ملک میں میرٹ کا بول بالا ہوجائے پھر ہمارے ہاں بھی کسی خانہ بدوش کا بیٹا صدر کے عہدے تک جائے گا، ضرور جائے گا۔ ورنہ صرف امریکہ کے مثالوں پر ہی گزارا کرنا ہوگا۔