ایک وقت تھا جب الگ الگ بادشاہت ہوا کرتی تھی۔ ایک بادشاہ کی سلطنت میں کئی چھوٹے چھوٹے بادشاہ ہوتے تھے۔ تعلیم کا کوئی خاص تصور نہیں ہوتا تھا۔ تین قسم کی کلاس ہوا کرتی تھی۔ ایک بادشاہ اور اس کا خاندان. دوسرا تھا درمیانہ طبقہ جس میں فوجی اور دیگر انتظامی افسر تھے۔تیسرا تھا غریب طبقہ جو کبھی ایک اور کبھی دوسرے بادشاہ کی طاقت تلے زندگی بسر کرتا تھا۔ دولت چند محدود ہاتھوں میں تھی اور بادشاہ ایک جم غفیر پہ راج کرتا تھا جو زندہ رہنے کے لیے غلامی قبول کرنے پہ مجبور تھا۔. چونکہ جس کی لاٹھی اس کی بھیس کا دور تھا اور آمد ورفت کےذرائع آج کے مقابلےمیں بہت کم تھے تو ہر بادشاہ مسلسل لڑائی کر کے طاقت کا نشہ پورا کرتا تھا۔
پھر قدرت میں کچھ ایسے انسان جو کہ بادشاہ جتنے مضبوط اور ہٹلر جیسے جرنیل جتنے با رسوخ تو نہیں تھے لیکن ان کے دماغوں نے دنیا سے بادشاہت کا قلع قمع کر دیا۔ ان لوگوں کو آج ہم سائنسدان کہتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ایک کے بعد دوسری ایجاد کر کے عام آدمی کی زندگی کا انحصار بادشاہ کی غلامی سے ہٹا کر کام پہ لگایا جس کا اس کو ایک مختص معاوضہ بھی ملنے لگا۔ لیکن سائنس نے محض ایک بادشاہت ختم نہیں کی بلکہ خود بادشاہ بن گیا۔
پھر آہستہ آہستہ دنیا بدلنے لگی۔ کون کس کا بیٹا ہے یہ بات اہمیت کھوبیٹھی۔ ایک موقع ملا ہر شخص کو کہ وہ میدان میں آئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی آج بھی اس پرانی بادشاہت کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ محض شکلیں اور نام تبدیل ہو گئے ہیں لیکن روِش وہی پرانی ہے۔ پہلے اگر بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بنتا تھا تو اب کہ یہ ہے کہ پہلے سے مختص کر دیئے جاتے ہیں کہ اگلا بادشاہ کون بنے گا۔ یہ ضرور ہے کہ ہر بادشاہ تخت سنبھالنے کے بعد ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ کسی بھی طریقے سے وہ اس تخت پہ مرتے دم تک بیٹھا رہے لیکن آنے والے بادشاہوں کو بھی تو اپنی باری کا انتظار ہوتا ہے۔
اسی طرح جس طرح پہلے بادشاہ اس شخص کا اپنا وزیر بناتا تھا جو اس کا سب سے زیادہ تابع فرمان ہوتا تھا ہاکستان میں آج بھی یہی حال ہے۔ میرا اشارہ کسی کی جانب نہیں۔ اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔
بادشاہت میں بھی کہیں کونے کھدرے میں کوئی کسی کو مار دے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ آج پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔ اور چھوڑیں! ہمارے یہاں تو ایک امریکی شہری نے دن دہاڑے دو آدمیوں کا قتل کر دیا اور وہ نا صرف امریکہ بخیر و آفیت پہنچ گیا بلکہ اس نے وہاں جا کے کتاب بھی لکھ ڈالی۔ حال ہی میں ایک تین بچوں کی ماں کے ساتھ دو ظالموں نے بچوں کی موجودگی میں جنسی زیادتی کے گناہ کا ارتکاب کیا۔ اوپر سے ہمیشہ کی طرح ایک پولیس افسر نے ایک بکواس کر کے جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے۔ بات اس کی ٹھیک ہے کہ یہ فرانس نہیں پاکستان ہے اور چونکہ ہم سب کو پہلے سے معلوم ہے کہ یہاں کیا حالات ہیں تو ہمیں خود دھیان رکھنا چاہیئے۔ مگر یہ میرے اور آپ کے کرنے کی باتیں ہیں محض تبصرے کی حد تک۔ پولیس کا کام چور کو پکڑنا ہے بے گناہ شہری کو درس دینا نہیں۔
ایک مرتبہ میں اپنے چچا ذاد بھائیوں سے ملنے ایبٹ آباد گیا۔ جب رات گئے گپ شپ ہو رہی تھی تو اچانک بجلی چلی گئی۔ بجلی کے جانے سے ماحول میں جب بوریت نے جنم لیا تو میں نے اپنے کزن سے کہا کہ آؤ باہر واک کرتے ہیں۔ چونکہ میں نے برطانیہ میں تعلیم کی غرض سے کافی سال گزارے ہیں ایک عادت سی بن چکی ہے من مانی کی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ میں بھی اس بدنصیب خاتون کی طرح توکل کرتا ہوں اور کئی مرتبہ اس بات کی پرواہ کیے بغیر رسک پہ رسک لیتا ہوں کہ میں اب پاکستان میں ہوں برطانیہ میں نہیں ۔ اب سی سی پی او صاحب کو ہم کیسے سمجھائیں کہ رات کو 12 بجے موٹروے سے زیادہ محفوظ سفر کوئی نہیں ہے۔ جی ٹی روڈ پہ ہر جگہ تو رونق نہیں ہوتی۔ کئی جگہائیں ویران آجاتی ہیں جہاں گاڑی آہستہ کرنی پڑتی ہیں۔ اکثر جلسہ جلوس اور رات گئے بجلی کی لوڈ شیڈینگ کے خلاف احتجاج ہوتے ہیں۔ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ موٹروے محفوظ نہیں ہے پھر بھی لوگ سفر کرنا تو نہیں چھوڑ سکتے۔ جیسا کہ گاڑیوں کے حادثات اور جہاز کریش ہونے کے حادثات کے باوجود لوگ گاڑی اور جہاز پہ سفر کرنا نہیں چھوڑتے۔ بلکہ معاشرہ ایک عظم کرتا ہے کہ کمی اور غلطی پہ تحقیق کرتا ہے اور اس امید کے ساتھ آگے بڑھتا ہے کہ آئندہ ایسے نہ ہو۔
خیر میں ایبٹ آباد کے واقعے کی جانب واپس آتا ہوں۔ میں اور کزن رات کے قریب 3 بجے واک پہ نکل پڑے اور اتنے میں مین روڈ آ گئی۔ وہاں ایک بند دکان کے باہر میں اور میرا کزن بیٹھ گئے۔ اتنے میں میں نے سیگریٹ لگائی اور ہم گپ شپ کرنے لگے۔ مجھے کزن نے کہا کہ بھائی اندر واپس چلتے ہیں پولیس کی موبائل آ رہی ہے۔ میں نے کہا تو آ رہی ہو نا ہم کوئی ڈاکو تھوڑی ہیں۔ باہر کھڑے ہیں، اندر گرمی ہے۔ اس میں کیا غیرقانونی عمل ہے۔ خیر اتنے میں پولیس موبائل سیدھا آ کے ہمارے سامنے رک گئی۔ میں آرام سے بیٹھا رہا۔ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے پولیس والے نے مجھ سے پوچھا تم کیا کر رہے ہو یہاں اتنی رات کو۔ میں نے کہا اندر بجلی نہیں ہے اس لیے باہر بیٹھے ہیں۔ پولیس والے کو غصہ اس بات کا تھا کہ میں ان سے ڈر کیوں نہیں رہا اور میرے لحجے میں اتنی خوداعتمادی کیوں ہے۔ اور میں نے ابھی تک ان کے احترام میں سیگریٹ بھی بند نہیں کی۔ اتنے میں وہ تینوں پولیس والے اچانک سے غصے میں گاڑی سے اترے اور میرے بلکل سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور ان کا سینیئر چِلا کر مجھ سے کہنے لگا "تم ہو کون جو اتنے دھڑلے سے اتنی رات کو مین روڈ پہ آرام سے بیٹھے ہو"۔ میں نے جواب نہیں دیا۔ اس نے اور غصے سے کہا "کیا کام کرتے ہو تم؟"۔ "میں جو بھی کام کرتا ہوں میں نے اگر کوئی غیر قانونی کام کیا ہے آپ مجھے ابھی کے ابھی گرفتار کر کے تھانے لے کے جائیں"، میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔ اتنے میں میرے کزن نے کہا کہ بھائی وکیل ہیں۔ جب اس نے یہ سنا تو اچانک سے ایموشنل بلیک میلنگ پہ آ گیا اور چیخ کے کہنے لگا وکیل صاحب آپ کو پتا ہے کہ یہ جس دکان کے باہر آپ کھڑے ہیں یہاں فلاں فلاں رات کو واقعہ ہوا تھا۔ آپ وکیل ہیں لیکن آپ کو اتنی سمجھ نہیں آتی کہ یہ پاکستان ہے۔ اس نے بھی وہی بات کی جو سی سی پی او نے کی اور ہم دونوں سے واپس گھر جانے کو کہا۔ میں بس اسی حد تک اپنے آپ کو ہیرو بنا سکتا تھا کیونکہ بعد میں میرے وکیل دوست انہی پولیس والوں کا جینا حرام کر دیتے لیکن مجھے جو پولیس والوں سے کٹ پڑتی نا جانے کتنے مہینے ہسپتال میں رہتا۔ وہ بھی رات کے 4 بجے۔
اب دیکھا جائے تو بات تو سی سی پی او کی بھی ٹھیک ہےاور اس پولیس والے کی بھی جس نے مجھ سے کہا کہ میں نے رات کے اس پہر باہر نکل کر خود اپنے آپ کو اردگرد مجرموں کو پیش کر دیا ہے۔ مگر یہ بات ایک پولیس والے کو نہیں زیب دیتی۔ پولیس تو ہے ہی میری اور آپ کی حفاظت کے لیے۔ پولیس کا یہ کہنا بلکل ایسے ہے جیسے ایک سرجن آپریشن کرتے ہوئے اپنے مریض سے کہے کہ آخر کیا ضرورت تھی اپنے بھائی سے جائیداد کے اوپر جھگڑا کرنے کی۔ ایسے جیسے ایک وکیل آپ کا دفاع کرنے کے بجائے آپ ہی کے اوپر جرح شروع کر دے۔ ایسے جیسے ایک نہاری بنانے والا اپنے گاہک کو کہہ رہا ہو کہ بی پی تو نہیں ہے آپ کو۔ ایسے ہی جیسے جنگ کے دوران فوج کا سربراہ کہے کہ آخر ضرورت کیا تھی پنگا لینے کی۔ تو گویا ہمارے ملک میں ہر بات کو یہ کہہ کے ختم کر دیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے۔ کیوں چلتا ہے سب؟ آخر کب تک چلے گا یہ سب؟