’پارلیمنٹیرینز کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، قبائلی عوام اداروں سے حقوق حاصل کر سکتے ہیں‘

’پارلیمنٹیرینز کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، قبائلی عوام اداروں سے حقوق حاصل کر سکتے ہیں‘
اسلام آباد: خیبر پختون خوا کے ضم شدہ ضلع اورکزئی کے نوجوان سیّد محمد جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس کی بندش کے حوالے سے پیٹیشن دائر کی تھی نے اپنی جاری کی گئی ویڈیو میں کہا ہے کہ اگر قبائلی نوجوان چاہیں تو عدالتوں کے ذریعے اپنے حققوق حاصل کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر موبائل انٹرنیٹ سروس معطل تھی جو تاحال معطل ہے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو 28 اپریل تک جواب جمع کرنے کے احکامات جاری کیے۔

نوجوان سیّد محمد نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ اگر قبائلی علاقوں کے نوجوان کوشش کریں تو ملکی عدالتوں سے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے حقوق غصب کیے گئے ہیں جن کو عدالتوں سے واپس حاصل کرنا موجودہ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے اور ان کو حاصل کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو اپنے پارلیمینٹیرینز کی منتیں کرنے کی ضرورت نہیں اور عدالتوں کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کریں۔

واضح رہے کہ قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کئی سالوں سے بند ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے بعد تمام یونیورسٹیز کو احکامات دیے کہ وہ طالب علموں کا تعلیمی سال بچانے کے لئے آن لائن کلاسز شروع کریں جس کے بعد قبائلی اضلاع کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی کیونکہ ان علاقوں میں نہ صرف انٹرنیٹ سروس بند ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ علاقوں میں موبائل سروس بھی بند ہے۔

قبائلی علاقوں کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ بھی شروع کیا ہے جس میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بحال کی جائے۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سماجی اور سیاسی کارکن عامر آفریدی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی بنیادوں پر انٹرنیٹ سروس بحال کر دیں کیونکہ اس سے ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں وابستہ ہیں۔



اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز صوبہ خیبر پختون خوا کے ضم شدہ اضلاع میں وزارت داخلہ کی جانب سے انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع میں آپریشن ہو یا لاک ڈاؤن، انٹرنیٹ بند نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا۔

پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والے نوجوان طالب علم سیّد محمد کی جانب سے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز بند کرنے حوالے سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی اور ریمارکس دیے کہ اگر کل اسلام آباد میں انٹرنیٹ میں حالات خراب ہو جاتے ہیں تو کیا پھر بھی انٹرنیٹ سروس بند کی جائے گی۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں واضح کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات کے باوجود قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ بحال نہیں کیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوتے ہوئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام نے مؤقف اپنایا کہ وزارت داخلہ نے 2016 میں قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ پر پابندی لگائی تھی جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ پھر تو سیکرٹری داخلہ کو نوٹس کر کے ان سے جواب طلب کر لیتے ہیں۔

سابقہ فاٹا کے نمل یونیورسٹی کے طالب علم سید محمد کی جانب سے عبدالرحیم وزیر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے مؤقف اپنایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے طالب علم گھروں میں محصور ہیں جب کہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث پٹیشنر اور دیگر ہزاروں طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سیکرٹری داخلہ 28 اپریل تک قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ فراہمی کا جواب جمع کرائیں، سیکرٹری داخلہ مجاز افسر بھی مقرر کریں جو آئندہ سماعت پر عدالت پیش ہو جب کہ وزارت داخلہ بتائے کہ قبائلی اضلاع کو انٹرنیٹ کی سہولت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کو آئندہ سماعت سے قبل جواب جمع کرانے کی ہدایت کی جب کہ مختلف فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28 اپریل تک ملتوی کر دی۔