ٹھنڈا میٹھا چشمہ اور ایک جھکا ہوا درخت (3 )

ٹھنڈا میٹھا چشمہ اور ایک جھکا ہوا درخت (3 )
میں آج آوارہ گردی کے آخری لمحات میں یہاں آکر رُکا تھا کہ یہی ایک آخری پناہ گاہ تھی اور اس درخت سے آنکھیں بند کئے ٹیک لگا کر اپنی سوچوں میں گُم تھا جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہو ئی تھیں اور جس کی شاخوں پر جب چڑیاں چہچہاتی ہیں تو کوئی شناسا مسکراہٹ سنائی دیتی ہے ۔اس درخت کے عقب میں ٹھنڈا میٹھا چشمہ بہہ رہا ہے جس کی پرشور آواز میں کئی گیت ہیں جو کبھی ہم نے گنگنائے تھے میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو بادل گھِر آئے تھے اور کچھ ہی دیر بعد بارش آگئی ۔کئی اجنبی اس درخت تلے آگئے کہ اس رم جھم کا نظارہ کریں وہ گیت گا رہے تھے۔

رم جھم گرے ساون،برس برس جائے من
بھیگی بھیگی راتوں میں ایسی برساتوں میں،کیسا لگتا ہے
ساون کے جھولے پڑے تم چلے آﺅ

میرے ایک دوست جو جواں عمری میں ہی گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے ہیں انہوں نے میری یہ تحریر پڑھی تو کہا کہ ”اس کا عنوان بہت خوبصورت ہے اور یہ کسی آپ بیتی کا نام ہو سکتا ہے اور مزید یہ کہ یہاں شاعر ہی دریافت نہیںہوا ایک تعلق ایک ناطہ بھی بازیاب ہوا ہے ،وہ جو دل کے نہاں خانے میںچھپا ہوا تھا اسے لفظوں کا پیرہن ملا اور ایک تصویر سی بن گئی لکھتے رہو اس سے پہلے کہ تمہارے بارے کچھ لوگ ’مرحوم کی یاد‘ میں لکھنا شروع کردیں ۔“ سو میں نے یہ سوچا کہ پروفیسر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ درحقیقت یہ میری ’جیون کتھا ‘ ہے ۔ اسے جاری رہنا چاہیے کہ اسے ایک کتاب میں محفوظ ہونا چاہیے ۔نیا دور کے رضا رومی اور علی وارثی بطور خاص میرے شکریے کے حق دار ہیںکہ انہوں نے مجھے یادوں کے اس سفر کو دہرانے کا موقع فراہم کیا ہے مجھے تنقید و تحسین کی پرواہ نہیں تمہارا عجز وانکسار بھی رتی بھر پسند نہیں آیا درحقیقت تمہار ا تبصر ہ بے جا ہے ،یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی عفیفہ کی شادی پر  اس کی کو ئی سہیلی اسے مبارکباد کے ساتھ یہ بھی کہے کہ تمہار ا فلاں یار بھی تمہیں بہت یاد کر رہا تھا سو حضور ’یک گو نہ بے خودی‘ کے موسم کوئی اور تھے یہ زمانہ کچھ اور ہے اس لیے مجھے تمہار ا ردعمل مطلوب نہیں ہے ۔میری اس تحریر کو دوستوں کے سامنے رکھو اور انہیں اس بارے میںاپنی رائے دینے دو
پیا ر کو پیار ہی رہنے دو اسے کوئی نام نہ دو
ثاقب ندیم کا ردعمل بہت ہی اچھا لگا اس نے بغور اسے پڑھا ہے ۔اور اچھا لکھا ہے۔

”آئینے کا بھید “میں کُل 814 اشعار ہیں نعتیہ نظم ،دھمال اور نذر ِ اقبال سمیت کُل 26 نظمیں ہیں ۔آغاز میں محترم محمد سلیم الرحمن کے لیے دو اشعار ہیں اور اس کتاب کا انتساب ”لعل شہباز قلندر کے نام“ ہے ۔منظوم ناول ”شہر پناہ “ کو تیرہ دروازوں کے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور آخر میں ”راج مستری کیہندا اے “ کے تحت 70پنجابی غزلیں ہیں ۔یہ ہے اس کُل کلا م کی ’ونڈ‘۔

اب یہ اشعار گھڑی کی ٹِک ٹِک کے ساتھ ساتھ لکھے گئے یا دل کی دھک دھک کے ساتھ رقم ہوئے ۔میں ضرب جمع تقسیم میں انتہائی نالائق ہوں اس لیے کچھ اندازہ نہیں کہ کتنی راتیں ،جگراتے دل کا کیا رنگ خونِ جگر ہونے تک خرچ ہوا ہوگا ۔

ایک غزل جس کی لمبی بحر ہے
جب تیر برستے تھے تو جن سینوں نے ان کو جھیلا تھا ان سینوں میں ایک سینہ میرا بھی تھا
جب تارے ٹوٹتے تھے تو جن تاروں کو رات نگل گئی تھی ان تاروں میں میرا بچہ بھی تھا
وہ شہ جمال بھی شب وصال بھی، اور بدن میں لطف شراب تازہ بھی تھا
ہم جذب و کیف سرور میں تھے لیکن دل میں انجانا سا اک خدشہ بھی تھا
ہم رونق ِ حُسن تو کیا تکتے وہ گھونگھٹ میں چہرے کو چھپائے جھکا ہو ا تھا لیکن
جو چوڑیا ں تھیں ،انگوٹھیاں تھیں جو دستِ حنا تھا اس پر اک ننھا سا قطرہ بھی تھا
ہم نے جو عمر گنوا لی ہے جو اپنی شکل بنا لی ہے ،دل کے آگے جو باڑھ اُگا لی ہے ۔
اب تنہا بیٹھ کے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں ہم اس تک پہنچ بھی سکتے تھے اور راستہ بھی تھا
جب ملنا تھا تب ملنا تھا ،ہم اتنے برس(دیکھو تو سہی)اک دوسرے سے انجان رہے
انہی راہوں ، رستوں ،سیڑھیوں میں تم آتے رہے اور یہیں کہیں میرا کمرہ بھی تھا
سبھی فقر و غنا میں ، یاد، خدا میں رہتے تھے ،احساِ س فنا میںرہتے تھے گُم سُم
انہی جوگیوں کی ٹولیوں میں دل کی ٹیں ٹیں پر نالہ کرتا راج حقیر و بے مایہ بھی تھا

یہ احساس یہ تجربہ ،، روایت سے انحراف بے مثال ہے ۔گزشتہ قسط کے بارے میں ایک نکتہ چیں نے فرمایا ”تم نے شیراز راج کو فیض احمد فیض سے ملا دیا ہے “ میں نے جواب دیا کہ برخوردار میں نے ملایا نہیں بلکہ ’جُدا‘ کیا ہے ۔اور پھر فیض صاحب کو کوئی اعتراض نہیں تم کون ہوتے ہے اس نے کہا تم کیسے کہہ سکتے ہو انہیں اعتراض نہیں ہے میں نے کہا میری ان سے کل رات ہی بات ہو ئی تھی انہوں نے اپنے مخصوص انداز میںکہا کہ ہم نے روایت سے انحراف کرکے نئی روایت کی بِنا رکھی تھی شیراز بہت اچھا کر رہا ہے نکتہ چین ہکا بکا رہ گیا دراصل تم نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا (سلمان عابد کو میں نے بتایا کہ جب کارپوریشن کا عملہ تہہ بازاری تجاوزات کے خلاف کاروائی کرکے تما م سامان قبضہ میں لیتا ہے اور ریڑھی بان کو جو جرمانہ اداکرنا ہے اسے زانوئے تلمذ کہتے ہیں ،وہ مطمن ہوگیا ،دیکھیں کب وہ یہ لفظ استعمال کر تا ہے )سرہانے میر کے ایک زمانہ بسر کرنے کے بعد اردو شاعری کو سب سے حسین دلربا انداز دینے والے فراق گورکھپوری کے مکتب میں بھی تم نے کچھ دیر کے لیے حاضری دی (یہ میرا خیال ہے )
راج مستری کیہندا اے۔

نیویں پاکے ٹُر جانویں گی دُور آدراں دے نال
جندڑی دا کیہہ سودا کرنا بے قدراں دے نال
کیسے کیسے اتھرے ڈیگے ،کیسے کیسے گھبرو
ادھا میلہ وڈ کے سُٹ گئی دو اکھا ں دے نال

تیری کھیڈ نئیں چلنی ،جا ہن کلا رہ
میرے ولوں ہُن مُکی جا ہن کلا رہ
بڑے چراں تِک اپنے دل تے جڑ لئی
تیری گنڈہ گردی ،جا ہن کلا رہ
تیرے رقعے تیرے ،تیرے تحفے تیرے
میں ایہناں تے تُھکدی ،جا ہن کلا رہ

رستے دے وچ رستے کنے سارے
ٹردے ٹردے رہ گئے کنے سارے
تازہ تازہ ہنجو تیری اڈیک دے
اسین بنیرے رکھے کنے سارے
اوہنے سامنے بہہ کے رو رو کڈے
پیراں وچوں کنڈے کنے سارے

چادر وچوں چمکے ہتھ
ساڈے دل نال کر گئے ہتھ
سُرمے دے نال چھلکے نین
ونگاں دے نال چھنکے ہتھ
راج مستری کیہندا اے
جیسی مٹی ،ویسے ہتھ

دشمن دار پرانے آں
وڈکے آں پر ایانے آں
اک دوجے دے بھیدی آں
اک دوجے دے کانے آں
تیجا بندہ جُت جاوے
ایسی کھیڈ نچانے آں

کچھ اشعار
کیا تہمتیں ملی ہیں جا ں سے گئے ہوﺅں کو
کیا ذلتیں ملی ہیں تجھ پر مرے ہوﺅں کو
تم کیا سزائیں دو گے وحشت بھرے ہوﺅں کو
تم کیا ڈرا رہے ہو خود سے ڈرے ہوﺅ ں کو

کبھی مل جائے دل پاک کی سمت
ڈھونڈ نی ہے ہمیں افلاک کی سمت
ہائے یہ لوگ کتنے سادہ ہیں
دیکھتے ہیں اسی چالاک کی سمت

ایسے لیا ہے میرا ہنس کے نام
آج سے اپنا جیون تیرے نام
سبھی پرائے میرے لیے بے نام
کاش یہاں کوئی مرا پکارے نام
جنگ مگر کرتے ہیں برائے ننگ
عشق مگر کرتے ہیں برائے نام

سو ”آئینے کا بھید “ ایک غیر روایتی شاعری ہے اسے ہر گز نہ پڑھیں اور نہ ہی یہ کتاب خریدیں کیونکہ یہ آپ کے کسی کام نہیںیہ رقعوں اور معشوقوں کو قائل کرنے والی شاعری نہیں اس میں کو ئی انقلاب کی نوید بھی نہیں ہے کو ئی نعرہ یا پراپیگنڈہ نہیں ہے میری تو مجبوری ہے کہ میں اس بارے لکھ رہا ہوں کیونکہ یہ شخص میری زندگی میں کسی ” ناگہانی آفت“ کی طرح آیا تھا اور آج تک اسی طرح موجود ہے میں اسے برداشت کررہا ہو ں اور سوچتا ہوں ’غم نہ کر اچھے دن بھی آئیں گے ‘مگر کوئی اس کی جگہ لینے کو تیا رہی نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی متبادل دستیاب ہے ۔

اردو شاعری ہی نہیں بلکہ دنیا ئے ادب کا منفرد اور شاید واحد تجربہ شیراز راج کا منظوم ناول ”شہر پناہ“ایک تفصیلی جائزے کا متقاضی ہے یہ ” یادوں کی رامائن “ہے یہاں بھی عام قاری بھٹک جائے گا کیونکہ یہ ان کے لیے ہے جو انہیں جانتے ہیں جن کے بارے میں اس ناول میںسخن گوئی کی گئی ہے ان کے حوالے سے شناسا لوگ ہی جان سکتے ہیں کس کس نے دو مصرعوں کے فریم میں جگہ پائی ہے ہر چہرہ ایک کتاب ہے درحقیقت یہ ناول ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول کھلے ہیں کچھ ٹمٹماتے چراغ ہیں جنہیں تم نے دونوں ہتھیلیوں پر رکھ کے قطار در قطار سجایا ہےالغرض یہ ”شردھانجلی“ ہے ۔ناصر کاظمی نے ’مانوس اجنبی ‘کی ترکیب استعمال کی تھی ”شہر پناہ“ کے سارے اشعار ’مانوس آشنائی ‘ ہیں۔

سو جان من تم بہت اچھے وقت پر یہاں سے چلے گئے ازابیلا یہ طے کر کے آئی تھی کہ تمہیں یہاں سے لے جانا ہے جب وہ آئی اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جس پر تمہار ا کیری کیچر بنا ہوا تھا اس نے کسی سے پوچھا ’یہ شخص کہا ں ملے گا ‘جو اب ملا وہ سامنے بیٹھا ہو ا ہے اس وقت تم میرے سامنے بیٹھے ہوئے ’پکا‘بنا رہے تھےازابیلا آئی اور کہا ’شیراز راج تم ہو‘ تم مودبانہ کھڑا ہو گئے اور منمنائے ’جی جی ‘ تو چلو میرے ساتھ ،اور وہ تمہیں اپنے ساتھ اڑن کھٹولے میں بٹھا کے یوں لے گئی جیسے کسی کے دل میں کو ئی چھپا راز چُرا کے لے جاتا ہے میں دیکھتا ہی رہ گیا آوازے بھی کسے
’چھوٹے میری جیب میں پانچ روپے بارہ آنے ہیں ،میں کیا کر وں تم نے مڑ کر دیکھا اور مجھے تسلی دی ” میں جلد ہی واپس آﺅں واپس گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے جاﺅ ں گا تم نے ایک خفیف سی کوشش بھی کی تھی شاید ازابیلا کی کو ئی سہیلی تھی لیکن اس کے ہاتھ میں میرا ’کیری کیچر ‘نہ تھا یوں چشم زدن میں ہی تم واٹس اپ ہوگئے ۔

کو ئی یتیمی سی یتیمی تھی ریت اڑ رہی تھیدشت کو دیکھ کے گھر یا د آیا ۔ماں بھی عدم کی مسافر ہو چکی تھی اور ثاقب ندیم بھی دیارِ غیر کا ہوکے رہ گیا تھا ماں سے تمہاری محبت دیدنی تھی۔وہ جانتی تھی کہ ہم ’بووالے سگریٹ‘ پیتے ہیں اور کبھی کبھی بوتل کے لیے جھگڑا کر تے ہیں ماں براہمن مزاج کی خاتون تھی ۔بین المذاہب ہم آہنگی کے نظریے کے سخت خلاف تھی ۔مگر ہر روز تمہار انتظار کرتی تھی ۔اور تم آتے ہی کچن میں گھس جاتے تھے۔ماں جانتی تھی کہ تمہیں کیا کچھ پسند ہے ۔میں نے ایک دن ماں کے کان میں ”صور “پھونکااور تمہاری اصل حققت بتادی ۔ماں کو یقین نہ آیا اسے یوں لگا جیسے اس کا کچن’ چتا ‘بن چکا ہے تمام برتن پلید ہو چکے تھے جب تم گھر آئے تو ماں نے منہ پھیر لیا تم حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے ،میں نے جب بتایا تو تم بہت سٹپٹائے ۔ تمہیں یقین ہوگیا کہ میر ی اس ’گھٹیا حرکت ‘کی وجہ سے وہ ماں کے ’دائرہ شفقت ‘ سے ہمیشہ کے لیے نکل چکا ہے مگر تم بہت’ کایاں ‘تھے ،جب تمہاری والدہ کینڈا سے آئیں تو تم انہیں لے کر میرے گھر آگئے انہوں نے آتے ہی ماں کا ماتھا چُوماتو ماں نہال ہو گئی اور اس کی تمہارے لیے محبت لو ٹ آئی ماں کی بیماری کے دوران میں اور تم ہسپتال میںرات رات بھر ٹہلتے رہتے تھے اور پکے پہ پکا چلتا رہتا ، ہم جانتے تھے کہ ماں اب وداع ہو رہی ہے ماں چلی گئی اس کے جنازے میں سب سے آخر میں تم سست روی کے ساتھ چل رہے تھے ماں کی قبر پر تم یوں افسردہ اور د ل گرفتہ اور آنکھوں میں ہزاروں اشک لیے کھڑے تھے جیسے سولہویں صدی کی کسی عظیم شاعرہ کے مزار پر کھڑے ہو۔

سو میری جان یہ دلوں کی داستان ہے اسے تم جانتے ہو یا میں جانتا ہے اس لیے اس’ محبت نامے‘ کے عنوان پر غور کرو۔میں اور تم ایک دوسرے کے د لوں میں مدفون ہیںتمہار ا کتبہ کچھ یوں ہے
”یہاں شیراز راج دفن ہے جس کے سینے میں شاعری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں وہ آج بھی یہ سوچ رہا ہے کہ سب سے بڑا شاعر وہ ہے یا سب سے بڑا نثر نگار طاہر اصغر
 قریب ہی میں کہیں تمہارے دل میں کر وٹ لیتا ہو ں اور جو اب دیتا ہوں” بکواس بند کرو سب سے بڑا نثرنگار میں ہی ہوں باقی جو آرہے ہیں یا جو آچکے ہیں ان سے پوچھ لو “

”آئینے کا بھید “ کی نظمیں اردو کی نظم نگاری میں ایک الگ سو چ و فکر کی غماز ہیں ۔ یہ نظمیں ایک ’مکالمہ‘ ہیں ’وقت سے کچھ باتیں‘۔’پوکھران سے چاغی تک ‘۔’دلی میں ‘۔’تعفن کی سانس ‘۔’میرے دل کے شہرملال میں ‘۔’سرراہ چلتے چلے‘۔’جگجیت سنگھ‘۔’جاوید انور‘۔’ رات ہمارے آنسو‘۔’غیبت ،نحوت ،شہوت ‘۔’کنار ہجرت ‘۔’چیزیں ہاتھ سے نکل رہی ہیں ‘۔لاجواب نظمیں ہیں جنہیں میں نے متعدد بار گنگنایا ہے ۔یہاں ایک نظم کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔

اُبکائی
میں کب تک گندگی کا ڈھیر سینے میں لیے
پھرتا رہوں گلیوں بازاروں میں
تعفن کا رچاﺅ لمحہ درلمحہ
مری سانسوں میں گہرا ہوتا جاتا ہے
میں اُبکائی میں زندہ ہوں
میرے حلقوم میں ٹھہرا ہوا کیچڑ
مری شہ رگ میں آتا ہے
تو اک عدسہ مری آنکھوں میں آگرتا ہے
مجھ کو گہرے رنگوں کے لبادوں میں
حیا اوڑھے بدن ننگے آتے ہیں
تاریکی مرے بستر پہ گرتی ہے
تو ہاتھوں میں ٹپک پرتا ہے
سارے دن کی محنت سے چرائے لمس کا حاصل
میں ڈرتا ہوں
کہیں یہ بھی نہ ممکن ہو کہ آنکھیں
ماں کیے پیروں پر کیے سجدے سے اٹھیں
اور مرے حلقوم میں ٹھہراہوا کیچڑ
مری شہ رگ میں آجائے

یہ نظم آج میرے ماحول میری ذات ،دوستوںکے لیے من حیث القوم ہیں جو کسی بھی بڑے ادب کا کمال ہوتا ہے ”آنندی “ایسے ہی نہیں لکھا گیا تھا اور اسی افسانہ نگار نے” دھنک“ لکھا تو بیس برس پہلے وہ خیال کر لیا تھا جو سب نے بعد ازاں دیکھا منٹو کا ”نیا قانون“”انکل سام کے نام خطوط“ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ن م راشد کی ”حسن کوزہ گر“ سو بیٹے سمجھو اور جانو آسکر اور نوبل اور تو ہم ہیں ۔بات تجدید نو کی ہے آنس معین ، ثروت حسین کیوں ریل کی پٹریوں سے جا لپٹے۔
ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں
کچھ دل نے کہا کچھ بھی نہیں

میں تمہارے بارے اس کتا ب کے ساتھ ساتھ اپنی کتاب ’لاہور کے محسن ‘بھی لکھ رہا ہوں۔ایک لاہور میں کتنے ہی لاہور دریافت کئے ہیں ۔ اب اس میں گنگا رام ،دیال سنگھ ،گلاب دیوی ،جانکی دیو ی جمعیت سنگھ ،امرتا شیر گِل ،کوئین میری ،اور سیسل چودھری ہی شامل نہیں بلکہ میں نے تمہاری ہدایت کے عین مطابق لاہور کی گم شدہ ثقافت کو بھی موضوع بنایا ہے جوحیات احمد خان کی آل پاکستان میوزک کانفرنس ، ٹی ہاﺅس ،کتاب میلوں ،اورادبی بیٹھکوں سے عبارت تھی لاہور کا لارنس گارڈن آج تک باغ عدن ہے ۔الحمراآرٹس کونسل ۔پاک ٹی ہاﺅس جہاں پر ہونے والا حلقہ ارباب ذوق اب ’ہلکا‘ہوچکاہے اور انجمن (ترقی پسند مصنفین) آوارہ ہوچکی ہے بقول حسنین جمیل اس کے کئی ’یار‘ ہیں ۔ گورنمنٹ کالج جہاں سے” بمبئی کا بابو“ فارغ التحصیل ہوا ۔وہ لاہور سے چلاگیا مگر اس کے اندر سے لاہور نہیں گیا ۔ اس لیے وہ جب واجپائی کے ساتھ لاہور یاترا آیا تو اس نے ایک ہی فرمائش کی تھی کہ میں نے گورنمنٹ کالج کو دیکھنا ہے ،چنانچہ اپنے گوہر بٹ نے اس کی یہ فرمائش پوری کی اور گورنر ہاﺅس سے سیدھے ا سے گورنمنٹ کالج لے گیا ،گوہر نے بتایا کہ دیوآنند کالج کی دیواروں کو ہاتھ لگا لگا کر گلوگیر ہور ہا تھا وہ اپنے خوبصور ت لہجے میں کہہ رہا تھا کہ ’’یہاں میںبیٹھا کر تا تھا یہ میرا کلاس روم تھا اور ہاں گوہر بھائی یہ وہ جگہ تھی جہاں میں ٹوٹی پھوٹی اداکاری کیا کرتاتھا “لاہور ایک معشوق ہے ۔

میں روزانہ دیال سنگھ مینشن سے نکلتا ہوں اور ریگل سے ہوتا ہوا ۔چیئرنگ کراس، واپڈا ہاﺅس آواری اور پھر الحمراآرٹس کونسل سے بائیں جانب مڑتا ہوں۔ فٹ پاتھ پر چلتے چلتے ایک دکان پر رکتا ہوں ’شاہ جی پچاس روپے کے کیپسٹن سگریٹ دینا اچھا’باﺅجی پیسے اپنے ہتھ وچ رکھو تھینک یو “سگریٹ لیے ایوان اقبال یہا ں ماڈرن لینگوئجز یونیورسٹی ہے جہاں سے کئی ایک ماڈرن لڑکیاں آجا رہی ہیں جنہیں لمحہ بھر کے لیے نگاہ غلط انداز دیکھتا ہوں آگے آتا ہوں ۔دائیں جانب صفیہ گرلزہوسٹل ہے۔سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اس کی دوسری منزل کی طرف دیکھتا ہوں مگر وہاںپردہ آگے کیا ہوا دکھائی دیتا ہے سوچتا ہوں کہ وہ جا چکی ہو گی پریس کلب کا گیٹ کراس کر تا ہوں اور کمپیوٹر روم کی طرف چل پڑتا ہوں حسنین جمیل کو میسج کر تا ہوں ’کدھر ہو ‘ ۔ جواب آتا ہے ’آرہا ہوں۔‘جیب سے شیراز راج نکا لتا ہوں ۔’آئینے کا بھید ‘ پڑھتا ہوں اور لکھنا شروع کر دیتا ہو ں۔
تمہاری ایک اور دل گرفتہ نظم میری اور تمہاری آ پی
نسرین انجم بھٹی

کو ن ہے تُو ؟
اتنے یگوں سے چکی پیس رہی ہے لڑکی
تیری پور کے رستے لہو سے
دانہ گندم سرخ ہوا تو کھائے گا کون؟
روحوں کے برفاب کدے ،پگھلاتے شعلے
تیری آہ سے سرد ہوئے تو جلائے گا کون؟
ارمانوں کے آتش کدے ؟
ہم اہل طلب تک رازِجنوں پہنچائے گا کون؟
گنوائے گا کون؟
ازلی زخموں کے بہی کھاتے
صفروں کی ضربیں ، تقسیمیں
گورکھ دھندے سُلجھائے گا کون ؟
تیری سکھیاں ککلی کھیل رہی ہیں
لیکن تجھے بلائے گا کون؟
سمجھائے گا کون ؟
”بال پُنے وچ کھیڈ لے کڑیے
نی تیرا اج کہ کل مُکلاوا
گیت اور نظم دل کے تال پر کب نغمہ بنتے ہیں یار دلدار کیسے بنتے ہیں حُسن اظہار میں کب ڈھلتاہے یہ شیراز راج کا کمال فن ہی ہمیں بتاتا ہے ۔
میں نے ایک آخری پکا سگریٹ سلگایا آسمان کی جانب دیکھا بارش رُک چکی تھی آسمان پر ست رنگی سی نمودار ہوچکی تھی تھک ہار کے میں اس جھکے ہوئے درخت کے نیچے آکے بیٹھ جاتا ہوں۔ جس کے عقب میں ٹھنڈ ا میٹھا چشمہ بہتا ہے اور اس شجر سایہ دار میں جب چڑیاں چہچہاتی ہیں تو کسی کی مسکراہٹ سنائی دیتی ہے اور چشمے سے سینکڑوں نغمے پھو ٹتے ہیں
عجیب داستاں ہے یہ ،
کہاں شروع کہاں ختم
یہ منزلیں ہیں کون سی
 نہ تم سمجھ سکے نہ ہم
(زیر اشاعت کتاب سے )

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔