جب سے پی ڈی ایم کا مینار پاکستان کا جلسہ ہوا تھا اسکے بعد سے محمود خان اچکزائی کی تقریر کو لے کر جلسے کے منتظمین اور خود اچکزئی پر شدید تنقید ہو رہی تھی۔ حتیٰ کہ بہت سے پی ڈی ایم کے حامیوں کو بھی انکی تقریر ناگوار گزری تھی جس میں انہوں نے اہل پنجاب کو انگریزوں کا خدمت گزار قرار دیا تھا۔
تاہم اب اس پر ایک قانونی رائے بھی سانے آئی ہے۔
لاہور کی اسیشن عدالت نے پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے خلاف مبینہ طور پر نفرت انگیز تقریر کے جرم میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں پی ڈی ایم جلسہ میں کی گئی تقریر تو دراصل قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش تھی۔
وکیل تنویر ارشد چودھری نے اندراج مقدمہ کی درخواست میں یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ دسمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے لاہور میں رہنے والے افراد کے خلاف گفتگو کی جس کی وجہ سے لاہوریوں اور پشتو بولنے والے افراد کے درمیان نفرت اور دشمنی کو ہوا ملی.
ایڈیشنل سیشن جج لاہور حافظ رضوان عزیز نے درخواست خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا کہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے کی گئی تقریر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جو نفرت انگیزی کے زمرے میں آتی ہو بلکہ وہ تو اپنی تقریر کے ذریعے پاکستان میں رہنے والے مختلف گروہوں کے مابین ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ کی ایک کوشش کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ سیکشن 153-A جس کے تحت یہ مقدمہ دائر کرنے کی درخواتس کی گی تھی اس کے مطابق مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینے سے متعلق ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ کسی بھی شخض کی جانب سے بول کر یا تحریر یا کسی اور طریقے سے مختلف گروہوں کے درمیان مذہب ، نسل ، مقام پیدائش ، رہائش ، زبان ، ذات یا برادری یا کسی بھی دوسری وجوہات کی بنا پر عداوت یا عداوت کا احساس اجاگر کرنا قابل سزا جرم ہے جس کی سزا پانچ سال تک قید اور جرمانہ بھی ہے.