حملے کا وقت آ گیا ہے

حملے کا وقت آ گیا ہے
پہلا کامیاب حملہ کون کرے گا؟ دباؤ بڑھ رہا ہے، وفاقی دارالحکومت میں کچھ ہو سکتا ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یا پھر کچھ بھی نہیں۔ آج کل حالات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ بے عملی مزید بے عملی کو جنم دے رہی ہے۔ ہر سیاسی کھلاڑی مخالفین کے ساتھ کھیل رہا ہے اور اتحادیوں کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ممکنہ نتائج اتنے زیادہ ہیں کہ غصہ بھی آتا ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے۔

تو پتے کس کے ہاتھ میں ہیں؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب روایتی سکرپٹ سے ہٹ جاتا ہے۔ بڑے کھلاڑیوں کے ایک صفحے سے ہٹ جانے کے بعد PDM اور PPP قومی اسمبلی میں ایک ان ہاؤس تبدیلی کے لئے چھریاں تیز کر رہی ہیں۔ PTI حکومت کو سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ کرے کیا۔ چند تناؤ والے ہفتوں کے بعد پارٹی اب نسبتاً پر اعتماد دکھا رہی ہے کہ وہ اس بلا کو ٹالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ کابینہ اراکین کو کہتے سنا گیا ہے کہ اپوزیشن کو کوئی 'اشارے' نہیں ملے اور بغیر اشاروں کے پارلیمانی تعداد حکومت کے حق میں ہے۔

اشارے کیوں نہیں ملے؟ اس مخصوص تھیوری کو درست ثابت کرنے کے لئے ایک علیحدہ سے پوری تھیوری ہے جس میں اپنی مرضی کے حقائق اپنی پسند سے ڈالے جا سکتے ہیں۔ آپ بھی اپنی مرضی سے چن لیں: شریف ابھی بھی قابلِ قبول نہیں؟ درست۔ PPP اب بھی اتنی مضبوط نہیں کہ خود کو ایک حقیقی آپشن کے طور پر دکھا سکے؟ درست۔ PTI نالائقی کی تصویری شکل ہے لیکن اس کی تمنائیں نیک ہیں؟ درست۔ تجربہ ابھی پورا نہیں ہوا؟ درست۔ ابھی پچھلے تجربے کے مضمرات پوری طرح سامنے نہیں آئے تو ایک نئے تجربے کے گورکھ دھندے میں کیوں پھنسا جائے؟ درست۔

حکومت لہٰذا خود کو بہتر محسوس کروانے کے لئے ایسے دلائل لا رہی ہے جس سے یہ خود کو محفوظ سمجھ سکے کیونکہ اور کچھ اس کے پاس دکھانے کو ہے نہیں۔ ان کی منطق کچھ یوں ہے: کوئی اشارے نہیں آئیں گے، جس کا مطلب ہے کہ کوئی تحریکِ عدم اعتماد نہیں آئے گی، جس کا مطلب ہے کہ حکومت اگلا بجٹ پیش کرے گی اور اپنے آخری سال کا آغاز کرے گی، جس کا مطلب ہے کہ تب تک سیاسی تبدیلی کا وقت نکل چکا ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ہی اس سال کے آخر میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کریں گے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی، جس کا مطلب ہے کہ انتخابات 2023 کی آخری سہ ماہی میں ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے پاس ابھی 1) معیشت کو بہتر کرنے، 2) مہنگائی پر قابو پانے، 3) الیکشن مہم کی تیاری کرنے، 4) مزید اپوزیشن رہنماؤں کو جیل میں ڈالنے، اور 5) انتخابی مہم کے لئے احتساب کو نعرہ بنانے کے لئے ابھی کافی وقت ہے۔

لیکن ہمیشہ کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں تو شاید دو رخ اور ہیں۔

ذرا تصور کیجیے: مہنگائی فروری کے مہینے میں ریکارڈ بلندی پر چلی جاتی اور PTI کا سیاسی سرمایہ – جو تھوڑا بہت بچ گیا ہے – اس کو بھی جنگل کی آگ کی طرح جلا دیتی ہے۔ پھر فروری کے اختتام پر PPP اپنا لانگ مارچ شروع کرتی ہے۔ یہ کراچی سے شروع ہو کر سندھ سے گزرتا ہوا جنوبی پنجاب میں داخل ہوتا ہے، وسطی پنجاب کے سرسبز میدانوں سے GT روڈ پہنچتا ہے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرف رخ کرتا ہے۔ یہ میڈیا کے لئے بہترین مناظر ہوں گے، خصوصاً اگر عثمان بزدار حکومت اس کے پنجاب میں داخلے پر اس کو بزورِ بازو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔

اگر PPP اتنی تیز ہوئی، اور میڈیا کو سمجھتی ہوئی اور سیاسی طور پر چاک و چوبند ہوئی تو یہ اس کو پورے ہفتے کا ایک ایونٹ بنائے گی۔ تزویراتی طور پر میڈیا کے باسہولت رسائی اور صف اول کے رہنمائوں کی موجودگی میں یہ جماعت صحافیوں اور ٹی وی سیٹلائٹ ٹرکس کے کارواں کو اپنے ہمراہ رکھ سکے گی۔ اگر اس کام کو صحیح طور پر کیا جائے تو میڈیا کی توجہ اسلام آباد کے ریڈ زون سے ہٹا کر لانگ مارچ پر مرکوز کی جا سکے گی۔ اگر پی پی پی کے رہنما میڈیا کے جدید استعمال سے واقف ہوں تو وہ خبرناموں اور لائیو پروگرامز میں جگہ بنا سکیں گے۔ شام کے دوران نئے مواد کے ساتھ احتجاج کے مقام سے براہِ راست مواد نشر کیا جا سکے گا۔

ایسا کرنے سے پی پی پی، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم سے ان کا بیانیہ چھین کر خود پر مرکوز کرا سکے گی۔ شدید مہنگائی کے دوران پی ٹی آئی کے خلاف شدید 'میڈیائی گولہ باری' کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا جا سکے گا۔

اسلام آباد میں داخل ہونا اپنے آپ میں ایک پروجیکٹ ہوگا۔ پی پی پی حکومت سے توقع کرے گی کہ وہ سخت اقدامات کا استعمال کرے۔ پی پی پی کے ایک کلیدی رہنما کے مطابق ان کی جماعت ریڈ زون میں داخل ہوگی اور ڈی چوک پر پڑائو ڈالے گی۔ اس سٹرٹیجک مقام پر اگر کئی ہزار لوگوں کو چند دنوں کے سیاسی ہنگامے، جلسوں، تقریروں اور 'طے شدہ مزاحمت' کے لئے جمع کیا جا سکے، تو وہ حکومت کی ایک انتہائی کمزور پوزیشن کے وقت ایک بڑا ماحول پیدا کر سکے گی۔

لیکن اس کے بعد کیا؟

پھر پی ڈی ایم احتجاج کرتی ہوئی آن وارد ہوگی، اور یہی سب کچھ دہرائے گی۔ اور ایک کمزور حکومت کے خلاف ہزاروں چارجڈ لوگوں کا پہلے سے گرم ماحول میں احتجاج ان دیکھے اثرات مرتب کر سکتا ہے اور ان دیکھے نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مثلاً خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اس کے فوری بعد ہونا طے ہیں۔ جیسے بیٹسمین کے گرد 9 فیلڈرز کیچ لینے کی پوزیشن میں تعینات کر دیے جائیں اور اس پر غلط شاٹ کھیلنے کے لئے دبائو بڑھایا جائے۔

یہی وہ وقت ہے جب نواز شرف 'گوگلی' کرا سکتے ہیں۔ ان کی جماعت کا ماننا ہے کہ وار کرنے کا ٹھیک وقت یہی ہے، سال کے آخر میں نہیں، اور نہ اس وقت جب وزیر اعظم ایک کلیدی تقرری کر چکے ہوں، بلکہ ابھی۔ ایسا کرنے کے لئے، شریف کو ایک ایسی لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کے وہ فطری طور پر حامل نہیں۔ ان کو کچھ یقین دہانیاں کرانا ہوں گی، کچھ مفاہمت کرنا ہوگی، اور کچھ ایسی متبادل پیشکشیں بھی کہ جس کے ذریعے ان کی جماعت کسی پہلے سے متاثرہ قوت کو مزید متاثر کیے بغیر اپنی جگہ بنا سکے، یعنی کہ توازن قائم رکھنے کا مظاہرہ۔ اور جماعت کے بہت سے لوگ اس بات پر قائل نہیں کہ نواز شریف اس راستے کا انتخاب کریں گے۔

لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں، فرض کر لیجیے، تو بند دروازوں کے پیچھے ہونے والا سیاست کا کھیل آنے والے ہفتوں میں سڑکوں پر شروع ہونے والے احتجاج کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکے گا۔ یہ combination مکے حکومت کو رنگ کی رسیوں سے لگا دیں گے۔

یہ ایک اعصاب کا کھیل ہے، اور چترائی کا۔ یہ کھیل اپنے عروج پر پہنچ رہا ہے جب کہ مقابل موجود لوگ ایک دوسرے کو ایک 'ہائی رسک، ہائی ریوارڈ' صورتحال میں پچھاڑنے کی تیاری میں ہیں۔ ہر ایک، اک مقام رکھتا ہے اور ہر اک پوری طرح تیار ہے۔

سوال یہ ہے، کہ پہلا حملہ کون کرے گا؟

فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔