ہماری حکومت کب ختم ہو رہی ہے؟ وزرا ایک دوسرے سے پوچھنا شروع، افواہوں کو تقویت ملنے لگی

ہماری حکومت کب ختم ہو رہی ہے؟ وزرا ایک دوسرے سے پوچھنا شروع، افواہوں کو تقویت ملنے لگی
سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں آج کل یہی باتیں ہو رہی ہیں کہ حکومت کب جا رہی ہےَ صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ اب تو وزرا بھی ایک دوسرے سے یہی سوال پوچھنا شروع ہو چکے ہیں۔

یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ملکی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ حکومت کے جانے کی افواہوں کو تقویت خود حکومتی کارکردگی اور معاشی بدحالی سے ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منگل کو پی ڈی ایم کا اجلاس ہوگا۔ یہ بھی باتیں ہو رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات طے ہو چکے ہیں۔

پروگرام میں شریک مہمان مبشر بخاری کا کہنا تھا کہ متنازع بلوں پر اپوزیشن بڑے مصمم ارادے کیساتھ پارلیمنٹ میں گئی تھی کہ ہم انھیں پاس نہیں ہونے دیں گے لیکن اب جب انھیں پاس کر لیا گیا تو اس کا الزام اب نامعلوم کالز پر لگانا شروع کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے سپیکر اسد قیصر کیخلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لانے کا کہا گیا لیکن آج تک اس پر بھی کچھ نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی استعفوں کی ڈیمانڈ کرتی رہی لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا اور اب لانگ مارچ کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ افواہوں میں کچھ نہ کچھ صداقت تو نظر آ رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزرا کو اس چیز کی تجدید کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی کہ عمران خان ہمارے وزیراعظم ہیں۔ اس حوالے سے ہیش ٹیگز تک چلائے گئے۔

پروگرام کے دوران لاہور میں ہونے والے دہشتگردی کے افسوسناک واقعے کی بھی پرزور مذمت کی گئی۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے مبشر بخاری کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس سے پہلے دہشتگردی کے جو واقعات ہوتے ان میں ٹی ٹی پی ملوث رہی لیکن حالیہ بم دھماکے میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کارروائی کی گئی جو تشویش کی بات ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مزید دھماکوں کی بھی دھمکی دی گئی ہے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری بلوچ نیشلسٹ آرمی نے قبول کی۔ یہ دہشتگرد تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ ری پبلکن آرمی کے الحاق سے وجود میں آئی تھی۔ اس کے ترجمان کا نام مرید بلوچ ہے۔ اس کی جانب سے جاری اعلان میں کہا گیا ہے کہ یہ دھماکا ہم نے کیا ہے۔ ہمارا ٹارگٹ بینک ملازمین اور پولیس اہلکار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچ لبریشن آرمی نے لاہور میں 2006 یا 2007 میں سائیکل کے ذریعے بم دھماکا کیا تھا۔

کراچی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے نادیہ نقی نے بتایا کہ شہر قائد میں بھی جگہ جگہ پر رینجرز دوبارہ نظر آنا شروع ہو چکی ہے۔ شہر میں چیکنگ اس قدر سخت ہے کہ چھوٹے بچوں تک کو اس سے استثنیٰ نہیں ہے۔ موٹر سائیکلیں روک کر فیملی کیساتھ بیٹھے چھوٹے بچوں تک کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ اس سختی کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ کچھ تھریٹس ہیں جن کی وجہ سے شہر میں ناکوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ہمارے بعض خوش فہم دفاعی تجزیہ کاروں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہمارے دہشتگردی کے مسائل حل ہو گئے کیونکہ افغانستان میں موجود بھارت کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس یہ سارے کام کرواتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ پچھلے 48 گھنٹے میں ٹی ٹی پی نے 6 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ آج لاہور میں ہونے والا دہشتگردی کا واقعہ بلوچ علیحدگی پسندوں نے کیا ہے۔