’عمران خان کی کوششوں کے باوجود فوج مذاکرات کرنے کے موڈ میں نہیں‘

’عمران خان کی کوششوں کے باوجود فوج مذاکرات کرنے کے موڈ میں نہیں‘
اسٹیبلشمنٹ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

اپنے تازہ ترین پوڈ کاسٹ میں صحافی کامران یوسف کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس 2018 کے عام انتخابات کے ذریعے نافذ ہونے والے اس منصوبے سے سیکھنے کے لیے کچھ سبق ہیں۔

صحافی  نے کہا کہ حال ہی میں ہونے والے تمام واقعات کے بعد، موجودہ فوجی قیادت سابق وزیر اعظم کو ایک بگاڑ پیدا کرنے والے اور اگلے 20 سالوں کے لیے ایک تباہی کے طور پر دیکھتی ہے۔ فوج میں عمران خان کا یہ تاثر ان کے حالیہ ریمارکس کے تناظر میں خاصا اہم ہے۔

تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے تازہ ترین بیان میں ایک بار پھر کہا کہ انہوں نے بات چیت کے لیے آرمی چیف  سے رابطہ کیا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کے لیے ان کی رضامندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ ملک کی صورتحال ہے جس نے انہیں بات چیت کرنے پر مجبور کیا ہے۔

تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اعتماد کی کمی کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کم از کم فی الحال عمران خان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی۔

سابق وزیر اعظم اور فوج کے درمیان 9 مئی کو ہونے والے فسادات کے بعد سے اختلافات مزید اضافہ ہواہے جن میں کئی حساس سرکاری اور فوجی تنصیبات پر حملے شامل تھے۔

القادر ٹرسٹ کیس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو عدالت کے احاطے سے حراست میں لیے جانے کے بعد کئی شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔پُرتشدد مظاہروں میں لاہور کور کمانڈر ہاؤس - جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے - میں فسادیوں کی جانب سے آتشزدگی اور توڑ پھوڑ شامل تھی۔

حساس تنصیبات پر حملوں کے بعد فوج نے مجرموں اور منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ حکومت نے بھی عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں ٹرائل کی حمایت کی اور کہا ہے کہ وہ 9 مئی بدامنی کا منصوبہ ساز تھا۔ تباہی کے بعد سابق حکمران جماعت میں بھی انحراف شروع ہو گیا اور بڑی تعداد میں رہنماؤں نے سابق وزیر اعظم سے علیحدگی اختیار کر لی۔