سندھی عوام بھی عجیب ہیں۔ ایک تو وہ اپنی بہن (بینظیر) سے سخت، غیر مشروط، یکطرفہ عشق میں مبتلا ہیں۔ اور دوسرا کل تک وہ اسی وڈیرے میر پیر کے پیچھے چلتے تھے جو جمہوریت اور پیپلز پارٹی کے لئے ریاستی ماریں کھاتا تھا، جیلوں، تھانوں اور فوجی عدالتوں میں پیشیوں سزائوں میں آگے آگے ہوتا تھا۔ ووٹ بھی سندھی اسی کو دیتے تھے۔ نوجوان مخدوم خلیق الزمان بھی تب ایسے گنے چنے پیروں، وڈیروں، میروں میں سے تھا۔ لیکن ان سے ذوق شوق و نفاست میں تھوڑا آگے۔
یہی وجہ تھی کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کی فوجی آمر ضیا کے ہاتھوں حکومت کا خاتمہ ہوا، ملک میں سپر مارشل لا یا فوجی آمریت قائم ہوئی، بھٹو ضیا کا پہلا سیاسی قیدی بنا اور پھر تختہ دار پر کھینچا گیا تو مخدوم خلیق الزمان اس بے آسرا، نہتی اور اس کے باپ کے ساتھ سیاسی بیوفائیوں کی ماری بینظیر بھٹو کے ساتھ اس کی جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر کود گیا۔ وگرنہ سندھ میں پیر پگاڑو کے بعد دوسری بڑی پیری والی گدی (جسے 'نو لکھی گودڑی' کہا جاتا ہے) میں سے کتنوں نے تھانے، پولیس، جیلیں، ٹارچر گھر دیکھے تھے۔ ان دنوں بینظیر بھٹو یا بھٹو خاندان کا ساتھ دینا موت کو دعوت دینے کے برابر تھا۔ عوام کا کام تو تھا ہی وفا اور عشق میں بہن پر مرنا لیکن یہ مخدوموں کا چھوکرا کہاں سے آیا؟
ہاں بھٹو کو اس نے کئی بار بچپن میں اپنے گھر ہالا کے 'اٹھاس بنگلو' اور نئے بنگلے میں دیکھا تھا۔ تب بھی جب وہ مشہور عالم اطالوی خاتون صحافی اوریانا فلاچی کے ساتھ کئی گھنٹوں گپ شپ لگا رہا تھا اور باہر اس سردی والی رات سندھ کے توپ وڈیرے، میر، پیر گھنٹوں سے شامیانے تلے کھانے پر اس کا انتظار کر رہے تھے اور کھانا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ بس سندھ کے ایسے توپ وڈیروں، میروں، پیروں کو 'اپنی اوقات میں' رکھنا تھا۔ جیسے بعد میں اوریانا فلاچی نے بھٹو سے اپنے اس تاریخی انٹرویو نوٹ میں لکھا تھا۔ اس وقت بھی جب اس کا بڑا بھائی مخدوم امین فہیم (حویلی اور مریدوں کی طرف سے نام 'ڈاڈا سائیں') ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کے انتخابات جیتنے کے بعد ایک دن بھی مڑ کر ٹھٹھہ کے ووٹروں کے پاس واپس نہیں لوٹا تھا۔ اور ان دنوں مخدوم طالب المولیٰ کا سندھی کلام 'آنگن کو میں جھاڑو دوں، تیری راہیں تکوں میرے یار سجن' رونا لیلیٰ (مخدوم امین فہیم کی سالی) کی آواز میں گراموفون اور ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بجا کرتا۔
بھلا بھٹو کو یہ مخدوم خاندان کیسے بھول سکتا تھا کہ اس سے کئی خوشگوار و سہانی یادوں کے ساتھ ایک تلخ یاد بھی وابستہ تھی جس کا تعلق بھی ہالا کے اس مخدوم خاندان سے تھا کہ جب بڑے اور 'نو لکھی گودڑی' کے گدی نشین مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ جو پی پی کے اس وقت اور بعد میں بھی ہمیشہ تاحیات سینیئر نائب صدر رہے اور اپنے اسی نوجوان بیٹے کی شادی کی دعوت وزیر اعظم بھٹو کو دینے اسلام آباد گئے تھے تو بھٹو سے ملاقات کے لئے کئی گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد ناراض ہو کر وہاں سے چلے گئے تھے تو اس پر بھٹو کو بہت غصہ آیا تھا اور اس نے اس وقت سندھ میں اپنے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی کو حکم دیا تھا کہ مخدوم طالب المولیٰ کو گرفتار کیا جائے۔ جتوئی نے کہتے ہیں کہ بھٹو کو اس بات سے ٹھنڈا کیا تھا اور بڑے مخدوم کو بھی اپنے طریقے سے متنبہ کیا تھا۔ بہرحال مخدوم طالب المولیٰ سندھ کے کوئی روایتی فرعون صفت پیر نہیں بلکہ درویش صفت شاعر مزاج انسان تھے۔ اپنے طور کے وسیع المشرب انسان یہ قومی اسمبلی کے واحد رکن تھے جنہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی ووٹنگ والے دن اسمبلی اجلاس سے خود کو 'غیر حاضر' رکھا تھا۔
وہ اس حویلی سے پیر تھے جہاں اکثر لڑکوں اور بیٹوں بھائیوں کی تو ایک سے زیادہ شادیاں ہوتی ہیں یا ہوتی تھیں پر بیٹیاں 'حق بخشوانی جاتی تھیں' اور شاید اب بھی ایسا ہو۔ ایسی رسم جسے میڈیا اور ادب کی زبان میں 'قرآن سے شادی' کہا جاتا ہے۔
تو مخدوم محمد زمان کی بھی ایک سے زیادہ شادیاں تھیں اور ان کا یہ لاڈلا بیٹا مخدوم خلیق الزمان حویلی میں ان کی 'دھاری' ('غیر' مطلب کہ خاندان سے باہر کی اہلیہ میں سے تھا)۔ مخدوم طالب المولیٰ کی یہ شادی عشق کی شادی تھی اور انہوں نے اسے حاصل کرنے کو کچھ دیر یا ہمیشہ کے لئے 'بیراگ' یا ویراگ بھی اختیار کیا تھا۔ سندھ کے شہر حیدر آباد کے گاڑی کھاتہ سے غزنوی خاندان کی لڑکی سے مخدوم طالب المولیٰ نے بیاہ کیا تھا۔ مخدوم خلیق کو حویلی کے اندر اور باہر مریدگان یا ہالا کے لوگ 'گل سائیں' کہا کرتے۔ انتہائی خوش شکل، خوش لباس، پرکشش مونچھوں اور گھنگھریالے بالوں والے وجیہ مرد، عاشق و شاعر مزاج، حسن پرست، ایک سے زیادہ شادیوں کا شوقین مخدوم خلیق الزمان جو آگے چل کر بلا کا مئے نوش بھی ہوا۔ مخدوم طالب المولیٰ کے تمام پیار و لاڈ و اہلیت کے باوجود وہ گدی نشین نہیں بن سکتا تھا کہ وہ 'دھاری' ماں کا بیٹا تھا۔
اس شاعر و مئے نوش نوجوان مخدوم کو مارکسی و انقلابی اسباق کراچی یونیورسٹی کے فلسفے کے پروفیسر 'شہیدِ وفا' ڈاکٹر حسن ظفر عارف سے ملے تھے جو ضیا کی فوجی آمریت کی مخالفت میں اپنی نوکری گنوا بیٹھا تھا اور مخدوم خلیق کے کراچی کے فلیٹ پر اپنی شامیں گزارا کرتا تھا اور اس کا ہم پیالہ بھی تھا۔ یہ مخدوم خلیق الزمان ہی تھا جس کے توسط سے ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی بینظیر بھٹو سے ملاقات اور قریبی روابط ہوئے تھے۔ پھر بینظیر بھٹو نے ان کو اپنی پارٹی کے لوگوں کو انقلابی نظریات پڑھانے کو کہا تھا۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کہا کرتا: "میں کس کس کو انقلاب پڑھائوں گا؟ یہاں تو پوری سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی میں جاہل بیٹھے ہیں"۔
یہ وہ دن تھے جب بینظیر بھٹو اور اس کے ساتھیوں کا ایک پیر جیلوں، نظربندیوں اور شاذ و نادر ہی دوسرا پیر باہر ہوتا تھا۔ تو ایک مرتبہ 70 کلفٹن پر تب سندھ پی پی پی کے نوجوان لیڈر اور اپنے زمانے کے لیجنڈری طالب علم رہنما حسین شاہ بخاری نے بینظیر بھٹو کو کوئی سیاسی مشورہ اپنی تقریر کے مخصوص انداز میں دیا تو بینظیر نے کہا "حسین شاہ یہ جو آپ بتا رہے ہو یہ لکھ کر لائیں"۔ اب حسین شاہ بہت پریشان۔ اس پر مخدوم خلیق نے اپنی شام کی ایک محفل میں ازراہ تففن کہا "بی بی کو کیا پتہ حسین شاہ صرف بھوں بھوں کرتا ہے لکھتا نہیں"۔
قصہ مختصر نوجوان مخدوم خلیق کا پہلا سایسی کھڑاک سندھ اور ملک کے لوگوں نے تب دیکھا جب بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل اور اس کی اسیری کے دوران بینظیر بھٹو سہالہ ریسٹ ہائوس سے نظربندی کے بعد سندھ کے دورے پر نکلی اور اس کی پہلی منزل حیدر آباد بار اسوسی ایشن تھی (تب پی پی پی سندھ میں سابق میئر آفتاب شیخ، لال بخش میمن، عبدالشکور منشی بھی تھے اور آفتاب شیخ تو حیدرآباد کے صدر بھی تھے)۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ مخدوم خلیق جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر تھا۔ ہالا کے راستے پر بینظیر بھٹو اور مخدوم خلیق گرفتار ہوئے۔ ہالا اور اس کے آس پاس مخدوم کے مریدوں اور پی پی پی جیالوں نے زبردست احتجاج کیا۔
پھر جب سندھ میں اگست 1983 میں تحریک بحالی جمہوریت شروع ہوئی تو سندھ پی پی پی کا صدر تو غلام مصطفیٰ جتوئی تھا لیکن ہالا زیریں سندھ میں ایم آر ڈی تحریک میں انتہائی سرگرم رہا۔ مخدوم خلیق الزمان نے حیدرآباد سے گرفتاری پیش کی اور فوجی عدالت سے سزا لگنے پر اسے مچ جیل بھیج دیا گیا۔ سندھی میں جیل خوشی خوشی برداشت کرنے کو 'جیل منانا' کہتے ہیں۔ مچ جیل کو مخدوم نے باقاعدہ 'منایا'۔ مخدوم خاندان کے اس نوجوان کی ایسی قید و بند کی وجہ سے خاص طور اور عام طور ہالا کے مخدوم خاندان کاایک طویل مدت تک بھٹو خاندان اور پی پی پی سے ساتھ کی وجہ سے مخدوموں کو 'سندھ میں پی پی پی کے کور کمانڈر' کہا گیا۔
بینظیر بھٹو کی اپریل 1986 میں جلاوطنی سے واپسی پر بھی یہ مخدوم خلیق الزمان تھے جنہوں نے لاہور میں ان کے استقبال کے دوران استقبالی ٹرک پر چڑھنے کے دوران ان پر جسمانی ہراسانی کی کوشش کرنے والے شخص کو تھپڑ مار کر ناکام بناتے ہوئے بینظیر کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ اور اس کے ساتھ اس تاریخی ٹرک پر بھی سوار تھا جس کا نعرہ تھا 'بینظیر آئی ہے انقلاب لائی ہے'۔
مخدوم خلیق اب بینظیر کی پیجارو کا مستقل ڈرائیور دیکھا جاتا۔ خاص طور پر سندھ کے دوروں کے دوران۔ برصغیر میں اور خاص طور پر پاکستان اور سندھ میں عام طور پرعورت اگر اکیلی ہو، نوجوان ہو، سنگل یا غیر شادی شدہ ہو اور بلا تفریق جنس نقل و حرکت کرے تو مرد لوگ اور مردانہ یا پدرشاہانہ سماج بے پر کی اڑایا کرتا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ 'مخدوم سے بینظیر کا چکر' اڑایا جاتا رہا۔ خود مخدوم اور پی پی پی کے اندر ایک حصے سے بھی۔ یا مخدوم کے قریبی ساتھیوں کی طرف سے بھی، مخدوم کی باڈی لینگوئج سے بھی اس طرح کی قیاس آرائیاں نکالی گئیں۔ یا ان کے کچھ بہی خواہوں نے مخدوم کے 'یکطرفہ افیئر' کی بھی اڑائی۔ بہرحال۔
بینظیر کی منگنی اور پھر شادی آصف علی زرداری کے ساتھ ہو گئی۔ پھر ایسی باتوں کے بہتے پانی کو بند بندھ گئے۔ کسی قریبی دوست نے ان کے ابا حاکم علی زرداری سے بینظیر بھٹو سے شادی کا 'راز' پوچھا تھا تو اس نے اپنے اس دوست سے کہا تھا: "یہ مجھے بتائو کہ سندھ میں ایسا کون سا پیر، میر، وڈیرہ تمہیں سوجھتا ہے جس کی عمر 35 برس ہو اور وہ اب تک غیر شادی شدہ ہو؟"
اب یہ کھلا راز ہے کہ بینظیر کو بہت سی الرجیاں (allergies) تھیں۔ ان میں ایک شدید الرجی ان کو ناک اور گلے کی بھی تھی۔ 1986 میں جب بینظیر بھٹو خیرپور میرس ضلع میں گائوں ہیسبانی سے جیئے سندھ کے ہڑتالی گروپ کے ساتھ مسلح جھڑپ میں قتل ہونے والے اپنے جیالے فقیر اقبال ہیسبانی کے لواحقین سے تعزیت کرنے کے بعد واپس آ رہی تھی تو اس کی پیجارو حسب معمول مخدوم خلیق الزمان چلا رہا تھا۔ کہیں مخدوم خلیق کو چھینک آ گئی اور بینظیر بھٹو نے اس کو گاڑی سے اترنے اور کسی اور کو گاڑی چلانے کا کہا۔ مخدوم نے اس بات کو بہت دل پر لے لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر مخدوم خلیق شاذ و نادر ہی بینظیر کے قریب دیکھے گئے۔ حلانکہ وہ غلام مصطفیٰ جتوئی کے بقول پی پی جیالوں 'زیرو زیرو' ہونے کے بعد سندھ پی پی پی کے صدر بھی رہے۔
دیکھیں نا، بینظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی بیوفائیاں کرنے کی بڑی تاریخ ہے۔ ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، کھر، وٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، ہزار خان بجارانی اور بے شمار، سوائے سید قائم علی شاہ کے۔ اگر ضیاالحق کی برسی کا دعوت نامہ اس کا خاندان جاری کرے تو شیری رحمان، آصف زرداری سمیت پی پی پی کے بے شمار لیڈر اس کے مستحق ہوں گے، سوائے مولا بخش چانڈیو، قائم علی شاہ اور تاریخی سخت جیالی شاہدہ جبین کے۔
1988 کے انتخابات کے نتائج میں مخدوم خلیق الزمان سمیت مخدوم خادان سب کے سب بھائی بیٹے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر آئے۔ بینظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئی۔ اب مخدوموں کے لئے وقت آیا کہ وہ اپنی 'قربانیوں' کا صلہ و خراج وصول کریں۔ ہالا اور مٹیاری کے مخدوم اور جاموٹ کتنی بھی قومی یا عالمی سطح پر پہنچ جائیں لیکن وہ مقامی سیاست میں ایک دوسرے سے مسابقت کے دستانے میں چھپی دشمنی سے آگے نہیں نکل پائے۔ ہالا کے مخدوموں اور مٹیاری کے جاموٹوں کے درمیان طاقت و اختیار کی رسہ کشی کو آپ ازل تا ابد کہہ سکتے ہیں۔ ان کی اسی رسہ کشی کی وجہ سے سندھ اور علاقے کے لوگوں نے بڑے ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ ڈاکوئوں کے ٹولوں سے لے کر ضلعے بنوانے تک اور ایک پٹواری اور تھانیدار کی بھرتی تک ہالا کے مخدوم اور مٹیاری کے جاموٹوں کا کسی نہ کسی طرح ہر دور میں ہاتھ رہا ہے۔ پھر فیصل کاچھیلو کا اغوا ہو کہ بدنام زمانہ ڈاکو محب شیدی کا ابھرنا اور 1990 کے انتخابات میں جاموٹوں کے لئے مخالفین کو دھمکیاں۔
تو پس عزیزو، اقتدار میں آنے پر بینظیر بھٹو سے اپنی قربانیوں اور وفاداری کے صلے میں سندھ میں پی پی پی کے ان کور کمانڈر مخدوموں نے 'سندھ کی چیف منسٹری' مانگی۔ لیکن بینظیر کا مسئلہ یہ تھا کہ تمام مخدوم برادران اور خاص کر مخدوم امین فہیم دو بجے دوپہر کو رات کی نیند سے اٹھ کر جاگنگ پر جاتے تھے تو انہیں سندھ کا وزیر اعلیٰ بینظیر کیسے بناتی؟
جام صادق علی جب سندھ میں اسلام آباد کے ایس ایچ او کی طور وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو اس نے مخدوموں کی بینظیر سے ایسی رنجش کو خوب استعمال کیا۔ مخدوم جام کی نوازشوں کی کھولی گنگا میں خوب نہائے۔ ہالا کو ضلع بنانے کا اعلان، محب شیدی جعلی پولیس مقابلے میں مروایا گیا اور بڑے مخدوموں سمیت تمام مخدوموں سے جام کے تعلقات بڑے قریبی اور گرمجوش رہے سوائے مخدوم خلیق کے۔
جام صادق علی خلیج کے حکمران شیخ راشد المکتوم کے ذاتی طیارے میں سندھ کے سرکاری خزانے پر پیر پگارو سمیت ایک لائو لشکر عمرے پر لے گیا تو ان میں مخدوم امین فہیم بھی شامل تھا۔ واپسی پر یہ جہاز اس وفد کی جام کی طرف سے دبئی میں کرائی ہوئی شاپنگ کے سامان سے لد کر آیا۔
مخدوموں کا سندھ میں اپنا سیاسی گروپ تھا اور ہے۔
1991 میں مخدوم خلیق بہرحال جام صادق کی مبینہ حمایت سے 'آزاد' سینیٹر منتخب ہوا۔ لیکن پھر مخدوم خلیق اور جام صادق علی کے درمیان تعلیقات میں کھنچائو اور بات چیت تک بند رہی۔ ایک مرتبہ سینیٹ چیئرمین کی غیر حاضری میں مخدوم خلیق سینیٹ کے قائم مقام چیئرمین بنے تو جام صادق علی ازراہ تففن کہا کرتا کہ "کل اگر صدر غلام اسحاق خان ادھر ادھر ہو جائے تو اس کا مطلب ہے مخدوم قائم مقام خلیق صدر"۔ جام صادق علی کو کسی نے بتایا کہ مخدوم خلیق آج کل آئی ایس آئی والوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے تو جام نے کہا "ان کی تو ان سے واقفیت ابھی ہوئی ہے۔ میری تو آئی ایس آئی والوں سے 'نیازمندی' 1960 سے ہے"۔ اب یہ بھی کھلا راز ہے کہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو نہیں، مخدوم امین فہیم یا مخدوم شاہ محمود کو بنانا چاہتی تھی۔
مخدوم خلیق بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس کے ناراض بھائی مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ اس کی پی پی پی شہید بھٹو میں جا کر شامل ہوا۔ یہ اچھے برانڈ کی وہسکی تو تھی لیکن زیادہ چلی نہیں۔ مخدوم خلیق الزمان مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے پہلے اور زیادہ تر بعد میں گوشہ نشیں اور گمنامی میں ہی رہا۔
لیکن ایسے لوگوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ "وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ ۔۔۔۔۔"