پاکستان میں اس وقت لیڈرشپ کا بھی فقدان ہے اور بیانیے کا بھی۔ الیکشن ہو جائیں تو اس کے بعد ملک کے حالات کچھ حد تک بہتر ہونے کی امید ہے لیکن اگر یہی لوگ حکومت میں آئیں، کوئی نہ کوئی اتحاد بنے اور ملک کے حالات ٹھیک ہو جائیں، یہ ممکن نہیں نظر آ رہا۔ سٹیٹس کو کو بحال کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ الیکشن کی طرف ضرور جائے گی جس سے کچھ استحکام آئے گا اور حکمرانی کا جواز پیدا ہو گا۔ یہ کہنا ہے ڈاکٹر محمد وسیم کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں انہوں نے کہا کہ پی ڈیم ایم حکومت کا گورننس کے حوالے سے کردار کافی برا تھا اور ان جماعتوں کے نمائندوں کے لیے بھی اپنے حلقے میں جا کر ووٹ مانگنا مشکل ہو چکا ہے۔ بڑی پارٹیوں میں سے کوئی بھی پارٹی کوئی ایجنڈا لے کر عوام کے پاس نہیں جا رہی۔ ان کے پاس پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ ایک دوسرے کے خلاف کر رہی ہیں۔ نواز شریف کا بیانیہ 6 سال سے غائب ہے، شاید اس وقت وہ نہ چل پائے کیونکہ اس دوران عمران خان کا بیانیہ چلتا رہا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق ملٹری اسٹیبلشمنٹ جب بھی زیادہ مشکل میں آتی ہے اور ان کی ساکھ داؤ پر لگتی ہے تو اسے ملک میں شفاف انتخابات کروانے پڑے ہیں۔ ملکی تاریخ میں صرف 1970 کے انتخابات اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں ایک جانب پی ٹی آئی کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہے جو کافی مقبول ہے اور دوسری جانب ن لیگ کا ترقی اور خوشحالی کا بیانیہ ہے مگر مہنگائی کے دور میں نواز شریف کے لیے بھی ووٹ مانگنے جانا مشکل ہو گا۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔