کوئی کرونا وائرس کو پاکستانی صحافیوں سے بچاؤ

کوئی کرونا وائرس کو پاکستانی صحافیوں سے بچاؤ
کرونا وائرس کے اس حالیہ انسانی تاریخ کے بد ترین بحران نے جہاں ریاست کے کمزور ستونوں کو عیاں کیا، وہاں صحافت جو اپنے آپ کو ریاست کا چوتھا ستون کہلوانا پسند کرتی ہے بھی خود کو گراتی چلی جا رہی ہے۔ بے چینی اور بدنظمی کے اس دور میں جہاں اس کا کردار حقائق کی باحفاظت ترسیل کے ذریعے عوام الناس کو باشعور رکھنا تھا، وہاں یہ عالمی ادارہ صحت کے مرض کے متعلق طبی حقائق کو لفٹ نہ کرواتے ہوئے بے پر کی آڑانے میں محو ہے۔ میڈیا کے ان دانشوروں کے خیالات سے آشنا ہونے کے بعد بندہ اس اطمینان سے ’ہلکا‘ ہو جاتا ہے گویا مملکت خدادا کو کرونا سے نہیں بلکہ کروںا کو ہمارے ملک سے خطرہ ہے۔

’دنیا‘ کی ایک بڑی قدوقامت والی شخصیت جو وہاں کے اعزازی یزیڈنٹ بھی کہلائے جاتے ہیں، جانے کیوں اول دن سے ریاست کا اس موذی مرض کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھلا ٹاکرا دیکھنے کے متمنی تھے۔ موصوف جن کا شمار اپنے نام کے لغوی مغی کے مطابق انڈسڑی کی کامیاب اور خوش قسمت ترین شخصیت میں ہوتا ہے، کی نظر میں کراچی کا لاک ڈاؤن دراصل شہر کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ ان کا چین کی معمولات زندگی پر جانے والے واحد راستے سے انحراف اپنی جگہ، لیکن کیا انہیں اپنے حسن نظر پر غور نہیں کرنا چاہیے جو انہیں حکومت سندھ کے نسبتاً بہتر لاک ڈاؤن کو ’جبری‘ اور ’اذیت ناک‘ دکھاتا ہے؟

یہ بڑی شخصیت زیادہ بہتر سمجھتی ہو گی کہ وہ کیوں انسانی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر کاروباری نظام کی روانی چاہتے ہیں! شروع کے دن جب یہ موذی مرض مختلف مملک میں اپنے قدم جما رہا تھا تو صاحب نے اس عالمی بحران کی تمہید کچھ اس اس طرح کی خوشخبری میں باندھی کہ اس آفت میں ہمارے ملک کے لئے طویل مدتی فائدہ اور کم مدتی نقصان ہے۔



ایک ’جید‘ کالم نگار کم اینکر جو کہ جز وقتی طور پر شہر شہر نگر نگر گھومتے پائے جاتے ہیں، (ٹورز کے مول چکانے کے لئے رہبر کا کردار بھی ادا کرتے ہیں) نے جوش میں آ کر اپنے ایک کالم میں کرونا کو اسلام کا سب سے بڑا مبلغ ثابت کیا ہے۔ اس ہوائی کالم میں جہاں ان ’جہاں دیدہ‘ صاحب نے مسلم امہ کی صفائی ستھرائی کی تعریفوں کے بند باندھ دیے وہاں گندے کافروں کے لئے کرونا کو برحق ثابت کر کے ان کو جہنم کی نوید بھی سنائی۔ یہ صاحب اپنے یو ٹیوب چینل پر یہ پٹی پڑھاتے پائے گئے ہیں کہ یہ وائرس گرم پانی اور بھاپ سے نہیں بچ سکتا اور بقول ان کے چین نے اس طریقے سے ہی اپنی بخشش کروائی۔

ابھی مت رکیے۔ پڑھیے اور سر دھنیے۔ ’خلیفہ‘ جی جو کی جتنی مہارت اپنے تجزیے کرنے کی صلاحیت میں رکھتے ہیں، اتنا ہی غصہ ناک پر دھرنے کے لئے معروف ہیں، انہوں نے اپنے چاہنوں والوں کی ڈھارس کچھ اس قسم کی خوشخبری سے بندھائی کہ وائرس کا چوبیس سینٹی گریڈ سے اوپر زندہ رہنا محال ہے۔ صاحب کی نظر میں پاکستان میں اموات کی کمی کی وجہ پاکستان کا خدا کی حفاظت میں ہونا ہے۔ (ایران اور سعودی عرب نوٹ فرمائیں) اپنے شو میں گرم پانی میں لیموں ڈال کر وائرس کی چربی گھلانے کا فلسفہ بھی پیش کیا۔

’سچ‘ کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے ذاتی جہاز تک پہنچنے والے اینکر، پروڈیوسر، ڈائریکڑ، سنگر اور مختلف صلاحیتوں والے ’بشر‘ آج کی تاریخ تک مصر ہیں کہ یہ عالمی وائرس ملک میں 15 اپریل کے بعد دم توڑنا شروع ہو جائے گا۔ (نوٹ: ان کی جانب سے سال بتانے سے گریز کسی حکمت کے تحت ہی کیا گیا ہے)۔ ان کی اس تھیوری کے جیتے جاگتے ثبوت، ستاروں کی چال اور ہاتھوں کی کھال کے وہ ماہر نیومرالوجسٹ و پالمسٹ تھے جن سے ان کی اس طبی موضوع پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ موصوف کی نظر میں وائرس کا لیب میں تیار ہونا دال کالی ہونے کی وجہ بھی ہے۔



ایک سابق بیوروکریٹ جو دل بہلانے کی غرض سے شیطانی ڈبے کے سامنے آ کر خواتین کے بارے میں اپنے عریاں خیالات سے جانے جاتے ہیں نے کرونا کو حسب توقع ایک عذاب گردانا۔ ان کے مطابق واحد مسلم ملک ایران جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اس پر اس عذاب کی وجہ نہ صرف افغانستان سے طالبان کی حکومت ختم کروانا ہے بلکہ عراق، شام اور لبنان میں منفی کردار کا بھی ادا کرنا ہے۔ (یہ ثبوت پیش کر کے ہم تو افغان بھائیوں کے دل دوبارہ جیت سکتے ہیں)۔ مذہبی حلقوں میں ’مقبول‘ ان صاحب نے اپنے ٹی وی پروگرام میں طب یونانی کے ایک ایسے حکیم صاحب کو دعوت دی جن کا دعویٰ اپنے ’کشتے‘ کے ذریعے تین دن میں کرونا کا علاج کرنا تھا۔

طب کی دنیا سے تجزیہ کاری کی دنیا میں قدم جمانے والے ’ڈاکڑ صاحب‘ جو کہ کسی زمانے میں برحق ہونے کا دعویٰ کر کے پھانسی پر چڑھنے کے خواہاں تھے، کے تجزیوں کا جائزہ لینے کے بعد کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ اس وائرس کے بعد سے نہ صرف عالمی ممالک میں عملی جنگوں کا آغاز ہو چکا ہے بلکہ یہ بخوبی اختتام پذیر ہو کر مختلف ملکوں کے حدود اربع کو تبدیل کر چکی ہیں، جہاں یہ وائرس ابھی بھی مسئلہ ہے۔ ایک پروگرام میں موصوف نے امریکی جریدے کا حوالہ دے کر بتایا کہ امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہاز تھیوڈور روزویلٹ کے 1200 امریکی فوجی کرونا کے شکار ہو گئے ہیں۔

دراصل آرٹیکل میں یہ لکھا گیا تھا کہ آمریکہ کے کل 1200 فوجی وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ طیارہ بردار بحری جہاز میں وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد 93 بتائی گئی تھی جو اب تک 600 ہو چکے ہیں۔ (اب پتہ چلا ڈاکڑ صاحب کے شو کی خاتون اینکر کیوں بے قصور تھیں؟)

پاکستان کے ’نمبر ون چینل‘ کی طرف رخ موڑیے اور سر پٹخیے۔ وہاں ’تبدیلی‘ کے ایک ’امیر‘ قوم کے سامنے ایسے برخوردار کی منہ دکھائی کروانے میں مشغول ہیں جو کہ کرونا وائرس کے تریاق کا مؤجد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ (امیر صاحب سے درخواست ہے کہ وہ پانی سے گاڑٰی چلانے والے انجینئر صاحب کو بھی عزت بخشیں)۔ اسی چینل پر ایک ’بے نور‘ صاحب ’میری جنگ‘ کرتے ہوئے ترنم کے ساتھ یہ ’ایکسلوژز‘ ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ کس طرح ایک امریکی ملعون نے اپنے تھوک کے ذریعے وہان میں قیامت ڈھائی۔ (بھائی دھیان رکھیں آپ کی بے احتیاطی ٹرمپ کی چین پر حملہ آور ہونے کا باعث بن سکتی ہے)۔

خان صاحب کے ایک جانثار جو کہ کالم نگاری کا بھی شغف رکھتے ہیں اپنے ’مظہر کو بر نا لا سکنے‘ کا شکوہ اپنے کالم میں کچھ اس طریقے سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے کسی جاننے والے حضرت کے پاس کرونا کا شافی علاج تیس سکینڈ کے ٹیسٹ اور چوبیس گھنٹے کے علاج کی صورت میں ہے، مگر کیا کریں فارماسیوٹیکل مافیا آڑے آ رہی ہے۔ ملتانی شاعر و کالم نگار صاحب اور شہر اقتدار کے سینیئر دانشور، کالم نگار اور ماضی کے رپورٹر گھبرانا نہیں کا الاپ لگاتے ہوئے وائرس کی مزموم کارروائیوں کو وطن عزیز کی ناقابلِ شکست قوت مدافعت اور ڈھیٹ ہڈی سے شکست دینے کا سبق ازبر کروا رہے ہیں۔ (شاہینو، وطن عزیز کی میسر کردہ خالص خوراکیں دبا کر دبی رکھو)۔

ایک اور چینل میں ’دو جڑواؤں‘ نے مہمان کے ساتھ گفتگو میں کلونجی میں کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈ کر ’سما‘ باندھا۔ ساٹھ ہزار ٹیسٹ سے پانچ لاکھ مثبت نتائج نکال کر تراہ نکالنے پر قوم اس وقت ’صابر‘ اور ’شاکر‘ ہوئی جب موصوف کا اعتراف منظرعام پر آیا کہ صرف زبان پھسلی تھی۔

https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1249767817794260992

صدر ٹرمپ جو کہ ملکی میڈیا سے اس لئے ناراض ہیں کہ وہ کرونا کی آڑ میں امریکہ میں سخت قسم کا خوف پھیلا رہے ہیں، ان سے التماس ہے کہ وہ ان سب صاحبان سے رجوع کر کے انہیں اپنے ملک میں بلا لیں۔ ان کا یہ نیک عمل نہ صرف ان کو ان کی میڈیا کی کچھ نہ کرنے والی تنقید کی جھنجھلاہٹ سے محفوظ رکھ سکے گا بلکہ وہ 22 کروڑ زندگیوں کو محفوظ کر کے ثواب دارین بھی حاصل کر سکیں گے۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔