کراچی کے علاقے حسن کالونی کے ستر سالہ رہائشی سید محمد امیر نقوی پانچ سال سے اپنے لاپتہ ہو جانے والے بیٹے کی راہ تک رہے ہیں۔ پچھلے چند دن سے وہ شدید علیل ہیں اور بلڈ پریشر کے عارضے نے ان کی زندگی کافی متاثر کر دی ہے۔
’میں تو یہ سوچتا ہوں کہ کاش میرا بیٹا شہید ہو جاتا تو شاید مجھے سکون آجاتا۔ لیکن وہ لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ ہم نے ہر دروازہ کھٹکٹایا لیکن کوئی داد رسی نہ ہوئی۔ اس کو صرف حبِ اہلیبیت کی سزا ملی ہے۔‘
25 فروری 2017ء کی صبح رینجرز اہلکار ان کے مکان کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور آفتاب علی نقوی عرف نومی کو یہ کہہ کر لے گئے کہ بس کچھ سوالات کر کے چھوڑ دیں گے۔ ان کی اٹھارہ سالہ بیٹی جبین زہرا نقوی کہتی ہیں کہ نہیں معلوم کہ وہ کونسی تفتیش ہے جو ان اذیت ناک پانچ سالوں میں بھی ختم نہیں ہوئی۔
جبین زہرا نے بتایا کہ رینجرز اہلکار بہت تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ ’ہماری گلی میں امام بارگاہ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے تھے۔ آنے سے ایک دن قبل ہی ان کیمروں کی تار کاٹ دی گئی تھی تاکہ کچھ بھی ریکارڈ نہ ہوسکے۔ ہمیں بھی یہ تب پتا چلا جب ہم نے امام بارگاہ سے فوٹیج لینے کی کوشش کی۔‘
جبین زہرا کا بچپن سڑکوں پر اپنے والد کی بازیابی کے لئے احتجاج کرنے میں گزر گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب ان کے والد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تو وہ ساتویں جماعت میں پڑھتی تھیں اور اب وہ سیکنڈ ائیر کی طالبہ ہیں۔ ’ہم ہی جانتے ہیں کہ یہ وقت ہم نے کیسے گزارا ہے۔ پڑھائی کے معاملے میں اپنے باپ کی غیر موجودگی میں فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ گھر کے حالات دیکھ کر اور اپنے آپ کو مصروف کرنے کے لئے میں نے نوکری کرنا شروع کر دی۔ میرا کسی خوشی میں شریک ہونے کا دل نہیں چاہتا کیوں کہ ریاست نے میری کل کائنات چھین لی ہے۔‘
انہوں نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ شہدا ملتِ جعفریہ کے اہل وعیال کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ کہیں دھماکا ہوتا تو ان کی کوشش ہوتی کے خانوادوں کے گھر جائیں۔ اگر کبھی ملک میں کوئی آفت آتی تو فوراْ اپنے دوستوں کے ساتھ راشن وغیرہ کا انتظام کرکے پسماندگان تک پہنچاتے۔ وہ پرنٹنگ کا کام کیا کرتے تھے اور اپنی جمع پونجی سے ان کی کوشش یہی ہوتی کہ وہ نواسہ رسول امام حسین کے روضہ مبارک جا کر سلامی پیش کریں۔
ان کے والد نے بتایا: ’ لاپتہ ہو جانے والے سال بھی وہ میرے ساتھ عراق گیا تھا۔ جہاں ہم نے نجف تا کربلا پیدل سفر کیا۔ اس کے بعد وہ زیارات کے لئے شام گیا۔ وہ شام ہی میں تھا جب ہم نے اسے خبر دی کے اس کا چھوٹا بھائی دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور اس کو بائی پاس کی ضرورت ہے۔ وہ فی الفور واپس آیا۔ لیکن واپس آنے کے کچھ ہی دن بعد اسے حراست میں لے لیا گیا اور تاحال کچھ پتہ نہ چل سکا۔‘
امیر نقوی کا ماننا ہے کہ انہیں زیارتوں پر جانے کی سزا ملی ہے۔ ’اگر میرے بیٹے نے کوئی قانون توڑا بھی ہے تو یہ عدالتیں کس لئے ہیں؟ کیوں اسے پیش نہیں کیا جاتا؟‘
جبین زہرا کا سوال ہے کہ اگر آفتاب علی نے کوئی جرم کیا بھی تھا تو کیا پانچ سال کی یہ اذیت برداشت کرنا اس کا کفارہ ادا نہیں کردیتا؟ ’میری والدہ ذیابطیس میں مبتلا ہیں۔ ان سے اب کچھ کام نہیں ہوتا۔ میرے دادا کی طبیعت مسلسل خراب رہتی ہے۔ میرے دادی دو سال تک میرے بابا کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے گزر گئیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے بہت محبت تھی۔ لیکن اب وہ محبت باقی نہیں۔ ہمارے پاس کوئی حقوق نہیں۔ ریاست کو کم از کم اتنا بتانا چاہیے کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟‘
امیر نقوی کو اب صرف یہ غم لاحق ہے کہ شاید وہ اس جہان سے کوچ کرنے سے قبل بھی اپنے بیٹے کو آخری بار نہیں مل پائیں گے۔ ’صرف ایف آئی آر کٹوانے کے لئے ہمیں ہائی کورٹ تک جانا پڑا اور پھر ایک سال بعد مقدمہ درج ہوا۔ ہر ادارے سے رابطہ کیا۔ ہر جے آئی ٹی کی پیشی پر گئے لیکن وہاں ہمارے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا ہمیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ بتائیں آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہوگا جو وہ لاپتہ ہے۔‘
پاکستان میں دن بدن جبری گمشدگیوں کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق شیعہ برادری کے ایک درجن سے زائد افراد جبر طور پر لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لئے کئی بار دھرنے اور احتجاج کئے جا چکے ہیں۔ البتہ سوائے چند افراد کے کئی لوگ اب تک گمشدہ ہیں اور ریاست یہ بتانے کو تیار نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس جرم میں پابندِ سلاسل ہیں؟
ٹیگز: Aftab Naqvi, Karachi Shia, Missing Persons, Sindh rangers, آفتاب نقوی, پاک فوج, سندھ رینجرز, شعیہ, فواد حسن, کراچی