مصد گڑھ، ہندوستان کی سرحد سے متصل ایک گاؤں، جو پاکستان کی پوری تاریخ ہے

مصد گڑھ، ہندوستان کی سرحد سے متصل ایک گاؤں، جو پاکستان کی پوری تاریخ ہے
نارووال مملکت خداد پاکستان کا آخری ضلع ہے، جس کی سرحدیں بھارت کے ساتھ ملتی ہیں۔ ضلع نارووال کا آخری گاؤں مصدگڑھ ہے جو مصدا سنگھ کے نام سے منسوب ہے۔ مصدا سنگھ اور لدھا سنگھ دو بھائی تھے جنہوں نے یہ گاؤں بسایا تھا۔

مصدگڑھ میں سکھوں کے بنائے گئے خوبصورت اعلیٰ طرز تعمیر کے گھروں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بہت بڑا گورودوارا تھا جس کے کھنڈرات بھی اب ختم ہوچکے ہیں۔ مصدگڑھ میں موجود سکھوں کے گھروں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی تھی کہ اکثریتی آبادی سکھوں کی تھی اور اکا دکا گھر ہندوؤں کے بھی تھے۔ مگر مسلمانوں کے گھروں کے کوئی آثار نہیں تھے۔

پاکستان بننے کا اعلان ہوتے ہی چودھری رحمت اللہ نے اپنے پریوار، برادری اور رشتہ داروں کے ہمراہ ریاست جموں کشمیر کےعلاقے موجودہ ضلع سامبا کے رام گڑھ سیکٹر کے نواحی گاؤں جسو چک (چک سلہریاں) سے ہجرت کی اور قافلے سمیت مصدگڑھ میں پڑاؤ کرلیا۔ مصدگڑھ کو دوسری بار چودھری رحمت اللہ نے آباد کیا جو سکھ خالی کر گے تھے۔ موضع مصدگڑھ کے جو گھر خالی رہ گئے وہاں اپنے سابقہ گاؤں جو سرحد پار چھوڑ کر آئے تھے وہاں کے مہاجر لوگوں کو تلاش کر کے بسایا گیا۔

سکھوں کا مصدگڑھ پورا کا پورا اب مسلمان ہوگیا تھا مگر نام آج بھی سکھوں کا ہی چل رہا ہے۔ گاؤں کے کونے پر چودھری رحمت اللہ نے ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنا دی، جو آج بھی ہے۔ چودھری رحمت اللہ کی اپنے ہندوستان والے گاؤں اور پاکستان میں بھی حیثیت گاؤں کے مکھیا کی تھی۔ سب لالا کہتے تھے۔عزت واحترام کرتے تھے اور اپنا بڑا سمجھتے تھے۔

مصدگڑھ گاؤں کیا تھا، ایک گھر تھا۔ سب کے دکھ سکھ سانجھے تھے۔ آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے مگر دکھ سکھ میں ایک ہوجاتے تھے۔ باہمی فیصلے پنچائیت سے کرتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ سب مسلمان تھے مگر لوئی، پوگا، بیساکھی، دیوالی اور ہولی سمیت عیدیں، شب براتیں بھرپور طریقے سے منائی جاتی تھیں۔

بھارت اور پاکستان کی سرحد پر بابا چمیال کے مزار پر میلےکی رونق ہر گھر میں ہوتی اور اہتمام کے ساتھ عورتیں، لڑکیاں، لڑکے، بچے بوڑھے میلے پر ضرور جاتے اور خوشیاں مناتے تھے۔ بابا چمیال کا مزار سرحدوں کے آر پار ہے۔ اصل مزار بھارت کے حصے میں ہے۔ چمیال کی مٹی میں کئی بیماریوں کے شفا کے حوالے سے بھی میلہ مشہور ہے اور دور دراز سے لوگ میلے میں شریک ہوتے ہیں۔ محبت، الفت، بھائی چارے کا ایسا ماحول تھا کہ جنت کا گماں گزرتا تھا۔ میلے ہی میلے لگتے تھے۔ محبت ہی محبت تھی۔

پھر یوں ہوا کہ میلے غیر شرعی اور بدعت قرار دیے جانے لگے۔ مزاروں پر جانا حرام بننے لگا۔ میلوں میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے۔ بزور طاقت میلوں کو بند کرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ رونقیں ماند پڑنے لگیں۔ راستے ویران ہوتے گئے۔ مصدگڑھ میں یکجہتی اور محبت کی علامت مسجد کے مقابلے میں اور مسجد بنا دی گئی۔ شادی بیاہ اور دکھ سکھ اپنے اپنے ہوتے گئے۔ کسی کے کھیت سے گنا توڑنا، مٹی اٹھانا، ساگ لینا جرم بنتا گیا۔ قربانی کی کھالیں شاہ جی کے بجائے مجاہدین کا حق بن گیا۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم نے پرانے رسم و رواج ملیا میٹ کر دیے۔ سنی بدعتی اور شیعہ کافر قرار پائے۔ مصدگڑھ کی کایا ہی پلٹ دی۔ میلے جانا معیوب ٹھہرا۔ سب کچھ بدل گیا۔ بدلا نہیں ہے تو ایک نام نہیں بدلا ہے۔ اہلیان کو چاہیے کہ مصدگڑھ کا نام بدل کر اسلام گڑھ رکھ دیں۔

میلے نہیں ہوں گے۔ بیساکھی نہیں ہوگی، دیوالی نہیں ہوگی۔ ہولی نہیں ہوگی۔ لوئی نہیں منائی جائے گی۔ پوگا نہیں منایا جائے گا۔ گھر بھی کچے نہیں رہے ہیں۔آموں کے درخت بھی کاٹ دیے، جامن بھی نہیں رہا ہے۔ ٹانیاں، گپوڑ، حقوں کی گڑگڑ، ٹالیاں رہی نہ بیریاں ہیں۔ اب کدورت، نفرت ہے۔ وقت واپس تھوڑی آتا ہے۔ اب محبت نہیں ہوگی۔ کبھی نہیں ہوگی۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔