ہجرت کامسافر

ہجرت کامسافر
ایک سفرنا تمام ایک تلاش بے سود مگر دل میں موجزن روشنی، آنکھوں میں ہویدا خواب اور زندگی کا حاصل ایک چہرہ، جس کی تابناکی سے زندگی جلا پاتی ہے۔

بہتی ہوئی آبشاریں اور وادیوں کی ہریالی، چرند پرند کا شور زندگی کی کشمکش میں الجھا انسان اور سورج کی کرنیں جب سب پر پڑتی ہیں تو سب کچھ نیا اور اجلا ہو جاتا ہے۔ایک مسکراہٹ، نغمے کی گنگناہٹ، شوخی، مستی، شرارت اور جینے کی بھرپور حرارت، آتش زیرپا حسنین جمیل کا دوسرا نام ہے۔ وہ ایک مترنم سرگوشی ہے۔

کہانی کیا ہے؟ یہ ہمیں گرودیوراجندر سنگھ بیدی نے بتایا۔ ان کا کہنا ہے کہ مرد عورت کے جھگڑے میں ایک تیسرا شخص آ گیا۔ وہ مرد کو ایک طرف لے گیا۔ اسے سمجھایا بجھایا واپس آیا۔ پھر عورت کو ایک طرف لے گیا اور آج تک واپس نہیں آیا۔

چیخوف سے موپساں تک۔ گورکی، ٹالسٹائی، ہیمنگوئے، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور منٹو تک سب ہی اس تیسرے شخص کی تلاش میں نکلے اور افسانوی ادب کو شاندار کہانیاں دے گئے۔ حسنین جمیل کو تیسرے آدمی کی تلاش نہیں ہے بلکہ وہ اپنی متاع عزیز سے ہاتھ دھونے والے کی اشک شوئی کو ترجیح دیتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں 70برس پہلے جو ہجرت ہوئی وہ لاکھوں انسانوں کی نقل مکانی کا موجب ثابت ہوئی۔ ہجرت کے بھوت آج تک دونوں ملکوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ہجرت ابتدائے آفرینش سے ہی انسانی تاریخ کا حصہ رہی ہے مگر حسنین جمیل کی ہجرت خوابوں اور خواہشوں کی ہجرت ہے۔ 1936ء کی ترقی پسند تحریک سے اس کا ناطہ محض اتفاقیہ نہیںہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان کا مقدر اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں ہے بلکہ دماغ میں موجزن تدبیروں سے ہے۔

محبت، دوستی اور تعلق خاطر کو وہ ایسے معنی دیتا ہے جو خود اس کی شخصیت کے مثبت پہلوئوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ندی کے کنارے چاندنی رات اور پھر رم جھم کی سرگوشی، لہلہاتے درختوں کی مدہوشی، مخمور ملاح کا گیت ،پناہ ڈھونڈتے ہوئے پرندوں کا شور اور ایک شخص کی تنہائی جو ہوائوں سے ہم کلام ہے، ستاروں سے آگے دیکھنے کی جستجو کر رہا ہے۔

غواص محبت کا اللہ نگہباں
ہر قطرہ دریا میں ہے ایک دریا
حسنین جمیل سے میری ملاقات کیسے ہوئی:
خوابوں میں ایک شہر دیکھا جنگلوں کے درمیاں
کتنا اونچا پُل تھا، کیسے خوبصور ت تھے مکاں
اک گلی کے موڑ پر تجھ کو دیکھاجو ناگہاں
میں پکارا تم کہاں؟
تم نے بھی پوچھا
تم کہاں؟

سو یہ تعلق آج تک تمام نشیب و فراز سے گزرتا ہوا قائم ہے۔ حسنین جمیل کے افسانوں کی تیسری کتاب ’’ہجرت‘‘ ہے جسے اس کے دوستوں نے پذیرائی بخشتی ہے۔ کرشن چندر کی رومانویت، منٹو کی بغاوت اور بیدی کا مفکرانہ ارتکاز حسنین جمیل کے قلم کی ’’روشنائی‘‘ ہے جو اس کے کالم کا عنوان بھی ہے۔ مگر ترقی پسند تحریک اور روشن خیال فکر قصہ پارینہ ہوئی۔ کلیشے کسی بھی طور فن کے معیار کا تعین نہیں کرتے ہیں بصورتِ دیگر فن پارے کمہار کے گھروندوں کی طرح ادھورے اور ناپختہ رہ جاتے ہیں۔

تقاریب رونمائی یا پذیرائی ڈگڈگی بجانے والے تماشے لگتے ہیں۔ خوشبو ہوا اور محبت کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں اور اپنی پہچان آپ ہوتے ہیں۔وہ کون سی حد فاصل ہے جو ادب کو صحافت سے جدا کرتی ہے اور ادبی تخلیق کیونکر وجود میں آتی ہے۔ اس کا فیصلہ بھی وقت زمانہ اور قاری کرتا ہے۔ فن ریاضت کا متقاضی ہے چند ایک شخصیات کی اوٹ میں چھپ کر یا ان کے الفاظ کی جگالی کرتے ہوئے انفرادیت یا اسلوب استوار نہیں ہوتے۔

حسنین جمیل ترتیب، تنظیم اور تحریک کا آدمی ہے اس کی خواہش اور جذبے ایک ہی ’’سورج‘‘ کے گرد گھومتے ہیں۔ جس نے اس کی زندگی کی کائنات کو روشن کیا ہوا ہے۔سدھارتھ نے ایک محل کو چھوڑا جس کے اندر داخل ہونے کے لیے قوموں کی تاریخ لہلولہان ہے۔ کیا حسنین جمیل بھی کسی محبت کی تلاش میں انسانوں کے جنگل میں کسی برگد کی چھائوں کا متلاشی ہے۔فلم، موسیقی، کرکٹ، سیاست اور عہد ساز کتب اس کو مرغوب ہیں۔ وہ ان کی خوشہ چینی کرتے ہوئے الفاظ اور سطریں سوچتا ہے۔ حسنین جمیل کمٹمنٹ کا آدمی ہے۔ میں نے دیکھاکہ اس نے اپنی نوکری چھوڑ دی لیکن کمٹمنٹ پر سمجھوتہ نہیں کیا۔میں نے بارہا اسے سمجھایا کہ زندگی کو جذباتی انداز میں گزارا نہیں جا سکتا لیکن اس کا کہنا ہے کہ میں کسی بھی ٹٹ پونجھیے اور ایسے شخص کے ماتحت کام نہیں کرسکتا جو کرپشن کرنے والوں کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔

میں اس کے فن سے زیادہ اس کی انسان نوازی کا معترف ہوں۔ مجھے اس کی کسی کج روی کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو برتر ثابت نہیں کرنا ہے۔ زمانے، لوگ اور پسند ناپسند آتے جاتے ہیں۔ حسنین جمیل جیسے دوست کم یاب ہوتے ہیں۔ میں اسے اس کی نئی کتاب ’’ہجرت‘‘ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔