پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہمشیرہ بختاور بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر مردوں کے داخلے پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔
لاہور میں خواتین سے ہراسانی کے واقعات منظر عام آنے پر سبین آغا نامی خاتون نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ میں کوئی ٹک ٹاکر یا یوٹیوبر نہیں بلکہ صحافی ہیں ، چند برس قبل وہ یوم آزادی کے موقع مزار قائد پر اپنے ادارے کی ہدایات پر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کررہی تھیں ، اس دوران 100 سے زائد اوباش مردوں نے ان پر ان کے کیمرہ مین پر حملہ کردیا۔
سبین آغا نے مزید کہا کہ کیمرہ مین اور میرے کو وہاں سے ہٹادیا گیا لیکن وہ ان اوباش لوگوں کے نرغے میں پھنس گئی۔ ہراسانی کے واقعے پر وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے شکایت کی تو انہوں نے الٹا کہا کہ ہم صرف 4 ہیں اور وہ 150 ، ایسی صورت حال میں ہم انہیں نہیں روک سکتے تھے، آپ یہاں آئی ہی کیوں؟
سبین آغا کی ٹوئٹ پر آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے کہا کہ خاتون سے ہراسانی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے، جب پولیس نے ہی مدد سے انکار کردیا، حالانکہ وہ واقعے کو روکنے کے لیے مزید نفری بلاسکتے تھے ، وہ ہجوم کو منشتر کرنے کے لیے اسلحے کا استعمال بھی کرسکتے تھے۔
بختاور بھٹو زرداری نے کہا کہ عوامی مقامات پر مردوں کے داخلے پر پابندی لگائی جانی چاہیے، ہمیں خواتین کی حفاظت کے لئے مزید خواتین کی ضرورت ہے۔
مینار پاکستان پر کیا واقعہ پیش آیا
میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں متاثرہ لڑکی نے کہا کہ یوم آزادی 14اگست کے دن اپنے چھ ساتھیوں کےساتھ مینار پاکستان گئی اور وہاں ٹک ٹاک ویڈیو بنارہی تھی کہ کچھ لڑکے آگئے اور سیلفی کے لئے کہا انکار پر انہوں نے بحث شروع کر دی اسی دوران 300 سے 400 افراد نے ان پرحملہ کردیا اس کے بعد وہ بری طرح ہجوم میں پھنس گئیں، بھاگ دوڑ میں وہاں ایک پانی کا تالاب نظر آیا سوچا اس میں کود جاؤں مگر مجھ سے ایسا نہ ہوا، 15 پر کال کی مگر وہ بھی کام نہ آئی، لوگ میرے بال نوچتے رہے جسم نوچتے رہے۔‘
انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ’حملہ آوروں نے اس حد تک دھکا دیا اور کھینچتے رہے کہ میرے کپڑے بھی پھٹ گئے اور اس کے بعد ایک ہجوم نے مجھے اٹھا لیا اور ہوا میں اچھالنے لگے، میں دہائی دیتی رہی مگر کسی نے میری نہیں سنی، حملہ آوروں نے انگوٹھی اور کان کی بالیاں، موبائل فون اور کچھ دیگر قیمتی سامان چھین لیا۔ بعض لوگ مددکےلئے بھی آئے مگرکچھ نہ ہوا۔