مجھے قتل کرنے کی کوشش کی گئی، جھوٹے فتوے لگائے گئے، مجھ پر فحاشی پھیلانے کے الزامات لگے، یہاں تک کہ کنجری کے الفاظ سے یاد کیا گیا لیکن میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹی۔ قصور میرا یہ ہے کہ میں خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہوں، ان پر ظلم کا پوچھتی ہوں، ان کے لئے آواز اٹھاتی ہوں اور جو بھی خاتون پدرسری معاشرے میں اس کام کا بیڑا اٹھاتی ہے سارا معاشرہ اس کا دشمن بن جاتا ہے۔’
یہ الفاظ خیبر پختونخوا کے وادی سوات میں پشتون معاشرے کا پہلا خواتین جرگہ بنانے والی باہمت خاتون تبسم عدنان کے ہیں جو گذشتہ کئی سالوں سے اپنی مدد آپ کے تحت خواتین کی حقوق کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب وادی میں طالبان کی حکمرانی تھی تو اس وقت خواتین بالخصوص کام کرنے والی عورتوں کو گوں نا گوں مسائل کا سامنا تھا، گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں، ان کی تعلیم پر پابندی تھی لیکن آج جب سوات میں شدت پسندوں کا کوئی وجود نہیں رہا تب بھی خواتین کی مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ اس ضمن میں پہلے کے مقابلے میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا ہے۔
تبسم عدنان کا تعلق سوات کے علاقے سید و شریف سے ہے۔ وہ چودہ سال کی تھیں جب ان کے والدین نے ان کی شادی ان سے عمر میں بیس سال بڑے ایک شخص سے کرائی جس سے ان کے چار بچے پیدا ہوئے۔ تاہم، عمر میں واضح فرق کی وجہ سے یہ شادی زیادہ دیر نہیں چل سکی اور کچھ سالوں کے بعد تبسم عدنان نے اپنے شوہر سے عدالت کے ذریعے سے طلاق لے لی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی عورتوں کے حقوق کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔
44 سالہ تبسم عدنان خاوند سے طلاق لینے کے بعد سوات میں خواتین کی ایک غیر سرکاری تنظیم وابستہ ہوئیں لیکن انہیں جلد ہی معلوم ہوا کہ چونکہ پشتون معاشرہ عورتوں کے حوالے سے قدامت پسند اور روایات پسند واقع ہوا ہے لہٰذا یہاں کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے 2010 میں سوات میں خویندو جرگہ یعنی خواتین جرگہ کے نام سے ایک غیر سرکاری ادارے کی بنیاد رکھی۔
تبسم عدنان کے مطابق 'خویندو جرگہ صرف خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر میں پہلی ایسی تنظیم ہے جہاں صرف اور صرف عورتوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'پشتون معاشرے میں جرگہ کو نہایت اہمیت حاصل ہے اور جہاں عام طورپر مرد ہی جرگہ کرتے ہیں۔ پھر ان جرگوں میں بالخصوص عورتوں کی زندگیوں کے فیصلے بھی ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان سے پوچھا جاتا ہے اور نہ ان جرگوں میں بیٹھنے کا حق دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم نے پھر مجبوراً فیصلہ کیا کہ اب ہم عورتیں جرگہ بنائیں گی جہاں ہم نہ صرف اپنے فیصلے خود کریں گی بلکہ متاثرہ خواتین کو بھی اس مشاروت میں بیٹھنے کا موقع دیں گی۔'
انہوں نے کہا کہ خویندو جرگہ خواتین کے تمام مسائل کا احاطہ کرتا ہے اور انہیں بلا تفریق ہر قسم کی قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پدرسری معاشرے میں خواتین کی حقوق کے لئے آواز اٹھانا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ انہیں اس وقت ہوا جب خویندو جرگہ کی بنیاد رکھی گئی۔
'2017 میں رات کے وقت میرے گھر پر فائرنگ کی گئی۔ جواب میں میرے محافظوں نے بھی فائرنگ کر دی۔ تاہم، ملزمان بھاگ گئے۔ اللہ تعالی کے فضل سے میں محفوظ رہی۔ رات کا وقت تھا، کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے۔ یہ شدت پسند بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم خواتین کی مـختلف معاملات میں قانونی معاونت بھی کرتے آئے ہیں (یہاں تک کہ ایسے ایسے کیسسز میں عورتوں کی مدد کی ہے جس میں خواتین کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا لیکن اسے خودکشی کا رنگ دیا گیا۔ تاہم، ہماری کوششوں سے ایسے مقدمات میں بعض ملزمان پکڑے گئے، انہیں سزائیں بھی ہوئیں) تو ایسے لوگ بھی ہمارے دشمن ہو سکتے ہیں کیونکہ جب مرد عورت کے ہاتھ سے سزا وار ہوتا ہے تو یہ اس کے لئے غیرت کا معاملہ بن جاتا ہے اور پھر انہیں ہوش نہیں رہتا۔'
تسبم عدنان کو سوات جیسے جنگ زدہ علاقے میں خواتین کے لئے آواز اٹھانے پر کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزازت سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے کل 15 کے قریب مختلف ایوارڈز حاصل کیے جن میں امریکہ میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ملنے والا باہمت خواتین ایوارڈ اور نیلسن منڈیلا ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔
'مجھ پر لوگ طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ یہ ہماری عورتوں کو خراب کر رہی ہے، فاحشہ خاتون ہے، اس کا سر قلم کرنا چاہیے، کنجری جیسے الفاظ سے پکارتے تھے۔ یہاں تک کہ لاہور میں ایک مفتی صاحب نے مجھ پر قتل کا فتویٰ بھی صادر کیا، جس سے میرا سارا خاندان اتنہائی پریشان ہوا۔ میں انہیں دلاسہ دیتی رہی کہ فکر نہ کریں، یہ میری آواز دبانا چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔'
انہوں نے کہا کہ سوات آپریشن کے دوران ہزاروں افراد لاپتہ یا ہلاک ہوئے جن کے بیوی بچے کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
'میرے پاس ایسی درجنوں مجبور اور لاچار عورتیں آتی ہیں جن کے شوہر طالبان تحریک میں شامل تھے، وہ یا تو مارے گئے یا پھر کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ ایسے خاندانوں کی عورتیں بہت مشکل میں ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایسی بیشتر عورتیں نوجوان ہیں، اگر کسی کے بچے رہ گئے ہیں تو سوات میں کوئی سکول انہیں داخل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ میں نے مینگورہ میں ایسے چند بچوں کے داخلے کے لئے بات کی تو سکول والوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم "بے غیرتوں" کے بچے داخل نہیں کرتے۔ میں نے انہیں کہا بھی کہ اگر باپ واقعی مجرم تھا تو اس میں بچوں کا کیا قصور ہے؟'
سوات میں 2004-05 میں جب شدت پسند تحریک کا آغاز ہوا تو ان دنوں طالبان سربراہ ملا فضل اللہ نے اپنے نظریات کے پرچار اور تبلیغ کے لئے ایف ایم ریڈیو کا بڑے مؤثر انداز سے استعمال کیا۔ ابتدا میں وہ اپنی تقریروں میں خصوصی طورپر عورتوں کے حقوق کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا کرتے تھے جس سے انہیں سوات میں جلد ہی خواتین میں مقبولیت حاصل ہو گئی۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ فضل اللہ کی تقریریں اتنی مقبول ہوئیں کہ خواتین گھر کا کام کاج چھوڑ کر ایف ایم ریڈیو کے سامنے گھنٹوں بیٹھ کرشغف سے ان کی باتیں سنا کرتی تھیں۔
سوات میں امام ڈھیری ملا فضل اللہ کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقام پر اس وقت ملا فضل اللہ کی طرف سے ایک بڑا دینی مدرسہ بھی تعمیر کیا جا رہا تھا جو ایک وسیع و عریض اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔
سوات کے مقامی صحافیوں کے مطابق مدرسے کی زیادہ تر تعمیر لوگوں کے عطیات اور چندوں سے کی جا رہی تھی جس کے لئے ایف ایم ریڈیو کا بھی مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا تھا۔
ان کے مطابق مدرسے کی تعمیر کے لئے سوات کی خواتین کی طرف سے بھی اچھی تعداد میں عطیات اور چندہ دیا گیا جس میں اکثر عورتوں کی جانب سے اپنے زیورات تک دینے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔
تاہم، 2009 میں جب شدت پسند سوات کے بیشتر علاقے پر قابض ہوئے تو سب سے پہلے خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ عورتوں کے گھروں سے باہر نکلنے اور بازاروں میں جانے پر مکمل پابندی لگائی گئی اور ان پر سکول کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔ یہاں تک کہ عورتوں کو کوڑے تک لگائے گئے، جس سے وادی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان دنوں مـختلف شعبوں اور غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ عورتیں اور خواتین اساتذہ طالبان کے خوف کے باعث گھروں کی دہلیز پار نہیں کر سکتی تھیں۔
سوات میں شدت پسندی کے دوران کوئی 500 کے قریب تعلیمی اداروں کو طالبان حملوں میں نشانہ بنایا گیا جس میں زیادہ تر تباہ ہونے والے سکول لڑکیوں کے تھے۔
ہما شاکر سوات میں خواتین کی ایک غیر سرکاری تنظیم ‘پاک ون’ کی سربراہ ہیں۔ وہ ڈویلپمینٹ سیکٹر میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم بھی ہیں۔ ہما شاکر نے اپنے بہن کے ہمراہ سوات کے پُرفضا مقام بحرین میں 1998 میں پاک ون نامی غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد خواتین کو با اختیار بنانا اور انہیں اس قابل بنانا تھا کہ معاشرے میں ایک فعال شہری کے طورپر کردار ادا کر سکیں۔ اس سلسلے میں تنظیم کی جانب سے بحرین جیسے پسماندہ علاقے میں مخلوط تعلیمی ادارہ بنایا گیا۔ بحرین میں پہلا خواتین کمپیوٹر سنٹر بھی اسی تنظیم کی کوششوں سے قائم ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو ہنر سکھانے کے لئے کئی ووکیشنل سنٹرز کا وجود بھی عمل میں لایا گیا جس میں سینکڑوں لڑکیوں کو کشیدہ کاری اور دیگر ہنر سکھائے گئے اور انہیں اس قابل بنایا گیا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت کوئی باعزت روزگار شروع کر سکیں۔
ہما شاکر کے مطابق جب سوات میں شدت پسندی پھیلی تو وادی میں کام کرنے والی مـختلف شعبوں سے وابستہ خواتین کے لئے گھروں کی دہلیز سے باہر قدم رکھنا محال ہو گیا اور اس دوران بحرین میں ان کی تنظیم کی طرف سے تمام مراکز بھی بند کر دیے گئے۔
‘چونکہ ہم بالائی سوات کے علاقے میں رہتے تھے، اس لئے وادی کے دیگر علاقوں سے کٹ کر رہ گئے۔ نقل مکانی بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ چاروں اطراف سے گھیرے میں تھے۔ وہ کچھ ہفتے ہم نے جو تکالیف برداشت کیں، انہیں بیان کرتے ہوئے اب بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔ راشن ختم ہو گیا تھا۔ ہم کئی دنوں تک پانی میں چاول ابال کر اس پر گزارا کیا کرتے تھے۔’
انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی کو طالبان بلا وجہ اپنے ساتھ لے گئے تھے اور پھر دو دنوں کے بعد منت سماجت اور سکول کی بچیوں کے احتجاج کے باعث انہیں چھوڑ دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے بھائی کی طالبان کے ساتھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔
ہما شاکر سوات میں طالبان کے خاتمے کے بعد کچھ عرصہ تک عالمی تنظیم ریڈ کریسنٹ کے ساتھ بھی منسلک رہیں اور ان بچوں کی کہانیوں پر کام کیا جو جنگ کی وجہ سے متاثر ہوئے۔
‘ہم نے ایسے کئی بچوں کے کیسز پر کام کیا جن کے والد جنگ کے دوران ہلاک ہوئے یا زندہ مردہ لاپتہ ہیں۔ ہماری تحقیق کے دوران سینکڑوں دلخراش واقعات سامنے آئے۔ ہمیں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ سوات کشیدگی کے دوران بیشتر شدت پسندوں کی ہلاکت کے بعد ان کی نوجوان بیویاں بے سر و سامانی کے عالم میں رہ گئی ہیں یا ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں لیکن ایسے خاندانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ تمام خاندان نہایت تکلیف دہ حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔’
انہوں نے خصوصی طورپر ایک گھرانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی خاندان کو جانتی ہیں جن کا بڑا عالی شان بنگلہ تھا، خوشحال گھرانہ تھا، ہنستے بستے بچے تھے لیکن گھر کا سربراہ طالبان میں شامل ہونے کے بعد آپریشن میں مارا گیا اور اس کے بنگلے کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا۔ اب اس خاندان کے یتیم بچے اور بیوہ دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ بیوہ نے اپنی بچیوں کو بمشکل میٹرک تک تعلیم دلوا کر انہیں بڑی کوششوں کے بعد مقامی سکول میں ملازمت پر لگا دیا ہے جس پر اب تمام گھرانے کا گزر بسر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ ایسے درجنوں یا شاید سینکڑوں گھرانے ہوں گے جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
2009 تک شدت پسند وادی سوات کے بیشتر حصے پر قبضہ کر چکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شدت پسند روزانہ اپنے ایم ایف ریڈیو سے نئے نئے احکامات جاری کرتے تھے۔ اسی سال جنوری میں طالبان کی طرف سے سوات میں لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی کا اعلان کیا گیا۔ سوات میں طالبان کے نائب امیر شاہ دوران نے ایف ایم ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 15 جنوری سے کوئی لڑکی سکول نہیں جائے گی اور جس نے اس کی خلاف ورزی کی تو وہ نتائج کی خود ذمہ دار ہوگی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ جس نے سکول کھولا اسے بم حملے میں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بچوں کے والدین میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کی 13 سالا بچی ملالہ یوسفزئی نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں پہلی مرتبہ آواز بلند کی اور گل مکئی کے نام سے بی بی سی اردو سروس کو ڈائریاں لکھنے کا آغاز کیا۔ وہ ہفتے یا دو ہفتے میں ایک ڈائری لکھا کرتی تھیں جس میں زیادہ تر طالبان کے مظالم اور بالخصوص تعلیم کے ضمن میں لڑکیوں اور استانیوں کی مشکلات کا تذکرہ ہوا کرتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ملالہ کے بلاگز کو پوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی اور اس بلاگ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
ان دنوں خوف اور غیر یقینی کی صورتحال کے باعث وادی سے پندرہ سے بیس فیصد مخیر حضرات نقل مکانی کر کے پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے تھے۔
مـختلف رپورٹس کے مطابق 2008 اور 2009 میں سوات کی کل آبادی 17 لاکھ نفوذ پر مشتمل تھی جس میں لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب بچیاں سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم تھیں۔ تاہم، جب دہشت گردی کی لہر آئی اور طالبان نے عوام پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا تو اس دوران ہزاروں بچیوں نے سوات چھوڑ کر یا تو محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کر لی یا سکول جانا ہی چھوڑ دیا جس سے ہزاروں بچیاں تعلیم سے محروم ہوئیں۔
جب لڑکیوں کی تعلیم پرپابندی کا اعلان ہوا تو اس وقت سوات بھر کے تعلیمی اداروں میں کم و بیش 40 ہزار بچیاں زیرِ تعلیم تھیں۔
مسرت امیر زیب سوات کی ایک فعال سیاسی خاتون رہنما ہیں۔ وہ 2013 میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ تاہم، پارٹی سے اختلافات کے باعث انہوں نے 2018 میں پی ٹی آئی چھوڑ مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ سوات کے شاہی خاندان کی بہو بھی ہیں۔ صحافیوں میں وہ 'مور بی بی' کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
مسرت امیر زیب کا کہنا ہے کہ سوات میں جب حالات خراب ہوئے تو ان دنوں وہ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھیں۔ انہیں خیال آیا کہ اس مشکل وقت میں سواتی عوام کو ان کی آشد ضرورت ہے۔ اگر وہ ان کے کام اب نہیں آئیں گی تو پھر کب آئیں گی لہٰذا نتائج کی پروا کیے بغیر وہ سوات واپس پہنچ گئیں۔
"میں نے ان کھٹن اور خطرناک حالات میں بھی خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت پانچ کشیدہ کاری کے مراکز قائم کیے جن میں کسی ادارے یا غیر سرکاری ادارے سے کوئی مالی معاونت نہیں لی گئی۔" انہوں نے کہا کہ ان مراکز میں عام خواتین کو تربیت دی گئی اور اس طرح کئی عورتوں نے تربیت لینے کے بعد اپنے لئے اپنا الگ کاروبار شروع کر دیا جس سے کئی گھرانوں کا روزگار لگ گیا۔
مسرت امیر زیب کے مطابق 'سوات ریاست کے دور سے ہی ایک بڑا ترقی پسند علاقہ رہا ہے۔ یہاں عورتوں کو تعلیم کی مکمل آزادی حاصل تھی، ان پر بلا وجہ کوئی روک ٹھوک نہیں تھی۔ لوگ مالی طورپر خوشحال تھے۔ تاہم، طالبانائزیشن ہمارے سارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا گئی۔ جو ترقی ہوئی تھی وہ سب ریورس ہو گیا۔ پسماندگی نے ڈیرے ڈال لیے۔ یہاں تک ہماری ثقافت، رہن سہن، لباس اور طور طریقوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔'
انہوں نے کہا کہ انہیں آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ طالبانائزیشن کیسے سوات آئی کیونکہ یہاں کے لوگ شدت پسند تھے اور نہ اس قسم کے نظریات رکھتے تھے، یہاں شدت پسندی باہر سے آئی ہے۔
مسرت امیر زیب کے ایک بھتیجے اور سابق صوبائی وزیر اسفندیار امیر زیب 2007 میں طالبان کی طرف سے نصب کیے گئے ایک بم حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اسفندیار امیر زیب پاکستان مسلم لیگ نواز سے وابستہ تھے۔ وہ سوات سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر بھی رہے تھے۔
سوات میں عورتوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے ویسے تو متعدد تنظمیں سرگرم عمل ہیں لیکن جب علاقے میں شدت پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھا تو ایسی تقریباً تمام سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں غیر فعال ہو گئیں۔ بیشتر ایسی تنظمیوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے یا تو بڑے شہروں کا رخ کیا یا پھر اپنے تمام آپریشنز مکمل طورپر بند کر دیے۔ تاہم، کچھ ایسے غیر سرکاری ادارے بھی تھے جنہوں نے کشیدگی کے دوران بھی خفیہ طور پر اپنا کام جاری رکھا۔
ایسے اداروں میں ویمن ویلفیئر ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن بھی شامل ہے جو وادی میں بیواؤں اور یتمیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے دستکاری کے ہنر سکھاتی رہی ہے۔
تنظیم کی سربراہ گل خندانہ کا کہنا ہے کہ سوات میں کشیدگی کے دوران سب سے زیادہ مشکلات خواتین نے برداشت کیں۔
ان کے مطابق 'طالبان نے عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنا بند کر دیا تھا، ان کی تعلیم پر پابندی تھی، استانیاں بھی سکول نہیں جا سکتی تھیں، خواتین کو کوڑے لگائے جاتے تھے، یہاں تک کہ شدت پسندوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو خاتون بغیر مرد کے گھر سے باہر نکلے گی وہ جس مرد کو جہاں ملی، اس کی بیوی تصور ہوگی۔'
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی انہیں دھمکیاں ملتی تھیں اور آج بھی مل رہی ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ کبھی ٹیلی فون پر دھمکیاں ملتی ہیں تو کبھی ڈاک کے ذریعے سے دھمکی آمیز خطوط ملتے ہیں۔ سوات میں برائے نام امن قائم ہے۔ اس کو آپ کیا امن کہیں گے جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہوئے خود کو غیر محفوظ سمجھیں؟ یہ کیسا امن ہوا؟ کیا عوام نے اتنی قربانیاں ایسے امن کے لئے دی تھیں؟
'لوگ پہلے بھی این جی اوز کے خلاف تھے اور آج بھی ہیں بلکہ ہمیں اپنے گھر کے اندر مسائل کا سامنا ہے۔ ہم پرائے لوگوں سے کیا گلہ کریں گے؟ میرے اپنے بھائی غیر سرکاری تنظیموں کو اچھا نہیں سمجھتے۔ نہیں معلوم ان کے ذہنوں میں کیا ایسی بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ فلاحی کاموں کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔'
گل خندانہ کے مطابق یہ پدرسری معاشرہ ہے۔ یہاں اگر کوئی خاتون اچھا کام کرتی ہے، خواتین کی حقوق کے لئے لڑتی ہے تو ایسی باتیں شاید مردوں کو اچھی نہیں لگتیں ورنہ فلاحی کاموں میں کیا ایسی برائی ہے کہ جس کی مخالفت کی جائے؟
'جب آپریشن جاری تھا تو ہمارا گھر مارٹر گولوں کا نشانہ بنا جس میں میری بھابھی اور کچھ بچے زخمی ہوئے۔ اس وقت آپریشن کی وجہ سے زخمیوں کو اسپتال نہیں لے جا سکتے تھے۔ اس واقعے کی وجہ سے میرا ایک بھتیجا آج تک ایک ہاتھ سے معذور ہے۔ ایسی سینکڑوں کہانیاں ہیں جن میں سوات کے عوام نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ جانوں کے نذرانے پیش کیے، مال قربان کیا لیکن افسوس جو ان کا حق بنتا تھا وہ ان کو نہیں ملا۔'
انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں نوجوان شدت پسند مارے گئے یا انہیں گرفتار کیا گیا یا وہ لاپتہ ہوئے۔ ایسے افراد کی جوان بیویاں اور بچے بے آسرا رہ گئے، جن کا اب کوئی پوچھنے والا نہیں۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔