سماج میں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے وزیراعظم کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے

سماج میں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے وزیراعظم کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے
یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ہم یہ تو بڑی شدت سے چاہتے ہیں کہ بھارت سیکولر ملک کا تشخص برقرار رکھے اور یہ مطالبہ کرتے ہی ہم اپنی آواز بڑی بلند کر لیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی اکثر ٹویٹ کرتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گاندھی اور نہرو کی روایات کا خاتمہ کر دیا ہے۔ سیکولر بھارت عملی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ وزیراعظم یہ بھول جاتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی سیکولر پاکستان بنانے کا سوچا تھا اور 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھی اپنے اس عزم کو دہرایا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے سیکولر سماج بنانے کا سوچا تک نہ بلکہ ایک شدت پسند معاشرہ تشکیل دیا۔

1954 کے لاہور میں ہونے والے مذہبی نوعیت کے فسادات کے بعد جس مذہبی انتہا پسندی کا پودا لگایا گیا وہ آج ایک خون آشام درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے اور ہماری رگوں سے سیکولر روایات کا خون چوس کر ایک تنا آور روپ دھار چکا ہے۔ ہمیں بھارت کے کشمیریوں پر ظلم بھی خوب نظر آتے ہیں اور اس بات کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں کہ وہاں اقلیتوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ مگر، پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیں نظر نہیں آتا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہم دیکھتے سمجھتے ہوئے بھی کان اور آنکھیں بند رکھنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔

اس وقت ہماری وفاقی کابینہ میں کوئی بھی غیرمسلم وزیر نہیں ہے۔ الحمداللہ سارے اہل ایمان ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز کے ساتھ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی حکومتیں ہیں۔ وہاں اقلیتوں کو کابینہ میں نمائندگی ملی ہوئی ہے مگر مرکز میں ایسا نہیں ہے۔

حال ہی میں تین ایسے بنیادی نوعیت کے واقعات ہوئے جس نے ہمیں بحیثیت قوم دنیا کے سامنے رسوا کیا ہے۔ پہلے ننکانہ میں سکھوں کے مرکزی گوردوارے پر حملہ ہوا۔ پھر ملتان میں وہاں کی مقامی بار ایسوسی ایشن نے غیر مسلم وکلا کے الیکشن لڑنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا اور اب چند روز قبل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے تمام ممبران وکلا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حلف نامے لکھ کر دیں جس میں وہ اپنے مذہب کا اقرار کریں۔ اگر مسلمان ہیں تو ختم نبوت پر اپنے کامل ایمان کا اقرار کریں۔ قانون دانوں کی طرف سے ایسے مطالبات کا اظہار کرنا ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے افراد کا شہر ہے۔ مگر پچھلے 15 سالوں سے یہ شہر بھی مذہبی شدت پسندی کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ پہلے لال مسجد کا واقعہ ہوا، پھر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل بھی اسی شہر میں ہوا اور قاتل کا تعلق بھی اسی شہر کے مضافاتی علاقے سے تھا۔ جو اس وقت انتہا پسندوں کا مرکز بن چکا ہے۔ وہاں کی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے اس قسم کا مطالبہ قابل مذمت ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر جو اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں، انہوں نے بار ایسوسی ایشن کی رکنیت احتجاجاً چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔

اس طرح ملتان جسے مومنوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ صوفی ازم، تحمل مزاجی اور مذہبی رواداری کی تلقین کرتا ہے۔ اس شہر کے وکلا کی طرف سے ایسا مطالبہ قابل شرم ہے۔ قانون کے طالب علموں کی طرف سے تواتر کے ساتھ ایسے مطالبات آنا لمحہ فکریہ ہے۔ جب ممتاز قادری نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا خون ناحق کیا اس کے بعد جب ممتاز قادری کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وکلا کی جانب سے ایک قاتل پر گُل پاشی کی گئی۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ وکلا جو آئین اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھنے والے اور دوسروں کو قانون سکھانے والے ہوتے ہیں۔ ان کی طرف سے اس طرح کا رویہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جن قانون کی تعلیم دینے والی درس گاہوں سے وکلا نے تعلیم حاصل کی ہے وہاں قانون کے نام پر ان کو کیا پڑھایا جاتا ہے۔ تعلیمی نصاب کو بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار اس نکتے پر غور کرنے کو تیار نہیں۔

پچھلے 17 سالوں میں 4 حکومتیں بدل چکی ہیں۔ پرویز مشرف پلس قاف لیگ کی حکومت، پیپلزپارٹی کی حکومت، مسلم لیگ ن کی حکومت اور اب تحریک انصاف کی حکومت۔ کسی حکومت نے معاشرے میں بڑھتی شدت پسندی کو روکنے کی کوئی ٹھوس پالیسی نہیں اپنائی۔ تعلیمی نصاب کو چیک نہیں کیا، ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی شدت پسندی کے اسباب پر غور نہیں کیا گیا۔

ہمیں یاد ہے پرویز مشرف کے دور میں مذہبی شدت پسندی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایک صوفی کونسل بنائی گئی تھی، جس کا سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو بنایا گیا تھا۔ مگر وہ صوفی کونسل بھی مذہبی شدت پسندی کو روکنے میں کوئی مثالی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پرویز مشرف پلس قاف لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد شاید کونسل ختم کر دی گئی۔

پاکستان ابھی تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ دنیا کو دکھانے کے لیے ہم نے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی لگائی ہے۔ حافظ سعید کو پابند سلاسل بھی کیا ہے۔ چوبرجی اور مریدکے میں ان کے مرکزوں کا کنٹرول بھی سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کو دے دیا ہے اور گڈ طالبان اور بیڈ طالبان میں تفریق بھی دور کرنے کا عہد کیا ہے مگر کب تک ہم دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکتے رہیں گے۔ کب تک اس آفت ناگہانی کا خاتمہ نہیں کریں گے۔ ہماری ہیئت مقتدرہ نے بھارت کو شکست دینے کے لیے جو لیڈر تیار کیا تھا وہ دہلی کے لال قلعے میں سبز ہلالی پرچم تو نہ لہرا سکا بلکہ الٹا سبز ہلالی پرچم کی دنیا بھر میں بے توقیری کا باعث بن رہا ہے۔

سبز پاسپورٹ کو آج اگر دنیا بھر میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو اس میں ان کالعدم تنظیموں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بڑے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ سپہ سالار اور وزیراعظم کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور معاشرے میں مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ کرنے ہوگا۔

وزیراعظم سے درخواست ہے کہ تعلیمی نصاب پر خصوصی توجہ دیں وزیر تعلیم شفقت محمود انتہائی پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ نصاب کو یکساں کریں مگر نصاب کے اندر سے نفرت آمیز مواد نکال دیں تاکہ معاشرے کا رنگ بدل سکے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔