کوسموس سیریز کے خالق اور مشہور ماہر فلکیات کارل ساگان نے کہا تھا کہ ہمارے ڈی این اے میں موجود نائٹروجن، ہمارے دانتوں میں موجود کیلشیم، ہمارے خون میں موجود آئرن اور ہماری ایپل پائی میں موجود کاربن ایک تباہ ہونے والے ستارے کے مرکز میں بنا ہے۔ ہم ستاروں کی خاک سے بنے ہوئے ہیں۔
سننے میں عجیب مگر ناقابل یقین سچ ہے کہ ہمارے جسم میں موجود عناصر مردہ ستاروں کی راکھ ہیں۔ وہ ستارے جو کروڑوں اربوں سال قبل فنا ہو گئے تھے۔ زمین پر پائے جانے والے قدرتی عناصر خواہ لوہا ہو یا سونا ان کی تخلیق ستاروں کے فنا ہونے کے دوران ہوتی ہے، اس لئے کہا جاتا ہے کہ انسان ستاروں کی راکھ سے وجود میں آئے۔
برج نرائن کا مشہور شعر ہے
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
ہمارے جسم میں ان عناصر کی ترتیب میں بگاڑ ہی بیماریوں اور موت کا سبب بھی بنتا ہے۔ وطن عزیز میں آلودہ ماحول، گندے پینے کی پانی، ناقص غذا اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے ہر دوسرا شخص کسی ناں کسی بیماری میں مبتلا نظر آتا ہے۔
خان صاحب مختلف ظاہری وپوشیدہ بیماریوں کا شکار عوام کو "آپ نے گھبرانا نہیں ہے" نامی ویکسین کے ٹیکے لگاتے جا رہے ہیں اور ناصرف دن بدن اس کے ڈوز کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے بلکہ ہر چند دن بعد بوسٹر ڈوز بھی لگوانے پڑ رہے ہیں۔ اب تو یہ عالم ہو گیا ہے تحریک انصاف کے حامی اور خان صاحب کے چاہنے والوں سمیت ان کی کابینہ کے ارکان بھی گھبرانے لگ گئے ہیں۔
عمران خان کے مشہور زمانہ ٹیکوں میں سے سب سے خاص صحت کارڈ نامی ٹیکہ ہے جو قوم کو 400 ارب روپے سے زائد میں پڑ رہا ہے۔ یہ چار سو ارب روپے براہ راست پرائیویٹ ہسپتال مافیا کی جیب بھرنے میں استعمال ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ یہ نیو لبرل ازم ہے جس کی تفصیل پھر کبھی مگر اس نظام میں امیروں کے لئے ٹیکسوں میں چھوٹ، ٹریڈ یونینز کا بزور تباہ کیا جانا، معاشی امور میں حکومتی نگرانی کو یقینی بنانے والے قوانین کا ختم کرنا، عوامی خدمات کے اداروں کی نجکاری یا انہیں ٹھیکے پر دینا اور لامحدود انفرادی منافعوں کے لئے مقابلہ سازی شامل ہوتی ہے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے استحصالی اداروں کے ذریعے ان نیو لبرل پالیسیوں کو بالعموم عوام کی مرضی کے بغیر دنیا کے بیشتر حصوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی نوے کی دہائی میں ہاسپیٹل اٹانومی ریفارمز کے تحت پہلے صحت کے بجٹ میں کمی کی گئی اور آبادی کے تناسب کے حساب سے نئے ہسپتالوں کا اضافہ نہیں کیا گیا۔ نیز سرکاری ہسپتالوں کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کو قدم جمانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ گذشتہ حکومت میں بھی مینجمنٹ بہتر کرنے کے بجائے سرکاری ہسپتالوں کی بہت سی سروسز آئوٹ سورس کر دی گئیں نیز ایسے کئی اقدامات کئے گئے جس سے پرائیویٹ سیکٹر مضبوط ہوتا چلا گیا اور اب موجودہ حکومت صحت کارڈ کے نام پر ایک خطیر رقم پرائیویٹ سیکٹر کی جیب میں پہنچانے کا بندوبست کر چکی ہے۔
نیو لبرل ازم کا یہ درآمد شدہ ماڈل جو خود برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک میں ایک بڑی آبادی تک صحت کی مفت سہولیات پہنچانے سے قاصر ہے اور وہاں کے الیکشن میں صحت کا ایشو ایک بڑا ایجنڈ ا پوانئٹ ہوتا ہے۔ وہ ماڈل پاکستان جیسی کمزور ریاستوں میں کیا اثرات مرتب کرے گا، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ممکن ہے موجودہ حکومت نے نیک نیتی سے اس پراجیکٹ کو شروع کیا ہو اور بظاہر یہ خوشنما اور عام آدمی کے فائدے کا نظر آتا ہے مگر استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور خاص کر نیو لبرل ازم کو جاننے والے اس کی حقیقت کو اسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
یہاں یہ بھی اہم ہے کہ او پی ڈی سمیت آنکھوں، کان، دانتوں، نفسیاتی اور اعصابی سمیت دیگر بیماریوں کا علاج کیسے ہوگا؟ حکومت چار سو ارب سے زیادہ کی خطیر رقم جب پرائیویٹ سیکٹر کو دے گی تو روایتی انفراسٹرکچر چلانے کے لئے بجٹ کہاں سے آئے گا؟ جس ملک میں شراب شہد میں تبدیل ہو جائے اور دھوکا، فراڈ، لوٹ مار استحصال اور کرپشن جڑوں میں سرایت کر چکی ہو وہاں اگر انشورنس والے ہی ہسپتالوں سے مل جائیں اور لوٹ مار شروع کردیں تو چیک اینڈ بیلنس کیسے ہوگا؟ کھربوں روپے کا سرکاری انفراسٹرکچر جب تباہ ہو جائے گا اور حکومت کے پاس اگر پریمیم کے پیسے نہیں ہوں گے اور پرائیویٹ سیکٹر اپنی خدمات روک دے گا تو غریب آدمی کہاں علاج کروائے گا؟ ابھی تو یہ صرف دو صوبوں تک محدود ہے پورے پاکستان میں اس کا دائرہ کار پھیلا تو کتنے سو ارب روپے مزید خرچ ہوں گے اور وہ کہاں سے آئیں گے؟ اگر سیاسی نمائندے اور قبضہ مافیا اپنے زیرِ اثر حلقوں میں پرائیویٹ ہسپتال کھولنے اور جعلی انشورنس کلیم کی رقوم حاصل کرنے کا نیا دھندہ شروع کردیں جیسا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے ہسپتالوں میں انکشاف ہوتا رہتا ہے تو اسے کون روکے گا؟ ائندہ کوئی اور حکومت آئی اور اس نے اس پراجیکٹ کو روک دیا تب تک اگر سرکاری ہسپتالوں کا رہا سہا سٹرکچر بھی تباہ ہوچکا ہوا تو کیا ہو گا؟
سوالات تو بہت ہیں مگر ان کے جوابات تبدیلی سرکار کے مشیروں اور وزیروں کے بجائے آئندہ انے والا وقت ہی بہتر دے سکے گا۔ اللہ نہ کرے سہولت کے اس خوش نما چہرے کے پیچھے تباہی اور بربادی ہمارا مقدر ٹھرے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ ضلع اور تحصیل کے لیول پر سرکاری ہسپتالوں کو جدید اور اپ گریڈ کیا جائے۔ ہسپتالوں کی مینجمنٹ بہتر کی جائے۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنایا جائے دوائیوں کے خام مال کی مقامی سطح پر تیاری کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں اور اربوں روپیہ پرائیویٹ سیکٹر میں جھونکنے کے بجائے سرکاری ہسپتالوں کو منظم اور مضبوط بنایا جائے ورنہ پاکستان میں صحت کی سہولیات صرف امرا اور ایلیٹ کلاس تک محدود ہو کر رہ جائیں گی اور غریب آدمی کے پاس نزلہ زکام جیسی بیماریوں کا علاج کروانے کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں بچے گی۔