بھارت، جو کبھی اپنی تنوع میں خوبصورتی اور کثیرالثقافتی ہم آہنگی کا نمونہ تھا، آج مذہبی انتہاپسندی کے ایک ایسے بھنور میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والا یہ ملک، آج ایک مخصوص سیاسی نظریے کے زیرِ سایہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کے لیے تاریک ترین دور کی مثال بن چکا ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی کہانی اب صرف ایک قوم کی کہانی نہیں بلکہ ایک مسلسل المیے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ وہ مسلمان، جنہوں نے صدیوں تک اس سرزمین کو اپنے خون سے سینچا، جنہوں نے تاج محل سے لے کر اردو ادب تک، اس تہذیب کو اپنی شناخت دی، آج خود اپنے ہی وطن میں اجنبی بنائے جا رہے ہیں۔
بھارت میں بڑھتی مذہبی انتہاپسندی کی بنیادیں (آر ایس ایس )کے ہندوتوا نظریے میں پیوست ہیں، جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے، باقی مذاہب کے پیروکار یہاں غیر ملکی یا ناپسندیدہ ہیں۔ یہ نظریہ، جو بظاہر ثقافتی برتری کے نام پر پروان چڑھا، دراصل ایک منظم حکمت عملی ہے، جس کا مقصد مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو دبانا اور ان کی شناخت مٹانا ہے۔
گائے کے تحفظ کے نام پر جو مظالم روا رکھے گئے ہیں، وہ کسی بھی انسان کے دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ایک ہجوم، جو مذہب کے نام پر مشتعل ہو، ایک مسلمان کو گائے کے گوشت کا الزام لگا کر قتل کر دیتا ہے۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر چیختی ہے، مگر انصاف کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ کس طرح مذہب کو نفرت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
بھارت کے متنازعہ شہریت قوانین، خاص طور پر شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور قومی شہریت رجسٹر (این آر سی)، نے مسلمانوں کے لیے زمین مزید تنگ کر دی ہے۔ یہ قوانین بظاہر قانونی اصلاحات کے پردے میں پیش کیے گئے، لیکن حقیقت میں یہ مسلمانوں کو غیر محفوظ اور بے وطن بنانے کی سازش ہیں۔ جن خاندانوں نے نسلوں سے بھارت میں زندگی گزاری، آج وہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان قوانین نے مسلمانوں کے دلوں میں خوف اور بے یقینی پیدا کر دی ہے۔ ایک ماں اپنی جھونپڑی میں بیٹھی اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے۔ اس کے پاس کوئی زمین کا کاغذ نہیں، کوئی ثبوت نہیں۔ وہ خود سے سوال کرتی ہے، کیا ہم واقعی اپنے ہی ملک میں غیر ہیں؟
لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی مہم، بھارت میں مذہبی جنونیت کی ایک اور مثال ہے۔ اس مہم کے تحت بین المذاہب شادیوں کو جرم قرار دیا گیا، خاص طور پر ان شادیوں کو جن میں مسلمان مرد اور ہندو عورت شامل ہوں۔ یہ الزام کہ مسلمان مرد ہندو عورتوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر مذہب تبدیل کراتے ہیں، دراصل ایک گمراہ کن پروپیگنڈا ہے، جو سماجی تقسیم کو مزید گہرا کرتا ہے۔ ایک نوجوان جوڑا، جو محبت کی بنیاد پر اپنی زندگی گزارنا چاہتا تھا، ہجوم کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ ان کی محبت نفرت کی آگ میں جھلس جاتی ہے، یہ کہانیاں نہ صرف دل دہلا دیتی ہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی واضح کرتی ہیں کہ بھارت میں مذہبی آزادی کا دعویٰ ایک کھوکھلا نعرہ بن چکا ہے۔
بابری مسجد کا انہدام، بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جو اس وقت کے مسلمانوں کے زخموں کو آج تک تازہ رکھتا ہے، لیکن یہ زخم صرف ایک واقعے تک محدود نہیں رہے۔ آج بھی مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان پر حملے کیے جا رہے ہیں اور انہیں متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ حملے صرف مذہبی عمارتوں پر نہیں بلکہ مسلمانوں کی روحانی اور ثقافتی شناخت پر وار ہیں۔ ایک بوڑھا شخص، جو اپنی پوری زندگی مسجد میں نماز پڑھنے میں گزارتا ہے، ایک دن دیکھتا ہے کہ اس کی مسجد کو ملبے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہتا ہے: ”ہم سے ہمارا خدا بھی چھینا جا رہا ہے۔“
بھارتی میڈیا، جو کبھی جمہوریت کا ستون تھا، اب زیادہ تر حکومت کے پروپیگنڈے کا ہتھیار بن چکا ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد، غدار، اور بھارت مخالف کے طور پر پیش کرنا معمول بن چکا ہے۔ یہ میڈیا مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور انہیں سماجی طور پر تنہا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ٹی وی اسکرین پر ایک اینکر چیخ رہا ہوتا ہے۔ ”مسلمان بھارت کے دشمن ہیں!“ یہ الفاظ نہ صرف نفرت کو فروغ دیتے ہیں بلکہ ایک پوری نسل کے ذہنوں میں تعصب کے بیج بوتے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن یہ تشویش عملی اقدامات میں تبدیل نہیں ہو پاتی۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور عالمی رہنما بھارت کی مذمت تو کرتے ہیں، مگر ان کے الفاظ مسلمانوں کے لیے انصاف کا دروازہ نہیں کھول پاتے۔
پاکستان، جو بھارت کے ساتھ ایک پیچیدہ تاریخ رکھتا ہے، ان مظالم کو نہایت قریب سے دیکھتا ہے، یہاں کے عوام بھارتی مسلمانوں کے لیے ہمدردی محسوس کرتے ہیں اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ جب بھارتی مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کی خبریں دیکھتے ہیں، تو ان کے دل دکھ اور غصے سے بھر جاتے ہیں۔
بھارت کا موجودہ راستہ، جو مذہبی انتہاپسندی اور نفرت کے بیانیے پر مبنی ہے، اس ملک کے لیے زوال کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک پاکستانی کی نظر سے، یہ صورتحال نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ پورے خطے کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ اگر بھارت کو اپنی جمہوریت، سیکولرزم، اور عالمی مقام کو بچانا ہے، تو اسے فوری طور پر اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ مسلمان، جنہوں نے اس سرزمین کی تہذیب و تمدن کو سجایا تھا، آج اپنی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
بھارت کی موجودہ سیاست صرف اس کے اندرونی امن کو تباہ نہیں کر رہی بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے، مسلمانوں کی مزاحمت اور ان کا حوصلہ آج بھی زندہ ہے۔ یہ جدوجہد ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی امید کا چراغ جل سکتا ہے۔ بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی اور خوشحالی تب ہی ممکن ہے جب اس کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیئے جائیں، ورنہ نفرت اور تعصب کی یہ آگ اسے جلا کر خاکستر کر دے گی۔