اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ کبھی ایسا ہوگا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام نے اسلام آباد میں صحافیوں سے آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال 2022-2023 پاکستان سمیت عالمی معیشت کیلئے بہت مشکل سال ہے، عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح پچھلے سال کی نسبت بہت زیادہ ہوگئی ہے جس کے اثرات کی زد میں پاکستان بھی آئے گا۔
حکام نے بتایا کہ رواں سال فروری کے بعد عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کا پاکستان پر اعتماد کم ہو گیا تھا اور آئی ایم ایف معاہدے میں طے کردہ شرائط پر عمل نہ کرنے پر سخت ناراض تھا، موجودہ حکومت نے اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی جس کے بعد اسٹاف لیول کا معاہدہ طے ہوا۔
اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی اگست میں چھٹیاں ختم ہونے جارہی ہیں اور چھٹیاں ختم ہونے کے بعد فوری دستیاب تاریخ پر آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہوگا، جس میں پاکستان کے اقتصادی جائزے کی منظوری دی جائے گی اور ساتھ ہی پاکستان کو قرضے کی قسط بھی جاری ہوجائے گی۔
ڈالر کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آئی ایم کی کوئی پیشگی شرط نہیں ہے کہ ڈالر کو کس ریٹ پر لے کر جانا ہے۔
’جو جماعت(پی ٹی آئی) آئی ایم ایف کے پروگرام میں گئی اُس نے شرائط پر عمل نہیں کیا تھا، آئی ایم ایف نگراں حکومت سمیت کسی بھی حکومت کے ساتھ بات چیت کرتا ہے جس کے تحت پاکستان کے ساتھ پروگرام کو آگے بڑھایا جاچکا ہے‘۔
غیررسمی گفتگو میں اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ ’ آئی ایم ایف اور امدادی ممالک ساتھ ہیں، جیسے ہی عالمی مالیاتی فنڈز سے معاہدہ طے ہوا تو دوست ممالک بھی امداد کے لیے تیار ہوجائیں گے‘۔
'عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے باعث رواں مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح اٹھارہ سے بیس فیصد رہنے کی توقع ہے، ملکی حالات سری لنکا اور گھانا سے بالکل مختلف ہیں‘۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان حکام نے کہا کہ معاشی صورت حال کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں، روپے کی قدر مستحکم رکھنے کیلیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور نہ ہی کبھی دیوالیہ ہوگا۔
حکام نے کہا کہ روپے کی قدر میں اضافے کے لیے پاکستان نے غیر ضروری درآمدات میں کمی کردی، حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے اور ملکی معیشت کو سنبھالنے کیلیے تمام مشکل فیصلے کر کے حالات کو بہتر تو کرلیا مگر رواں مالی سال 2022-2023 ملکی معیشت کیلئے مشکل سال ہے۔
اسٹیٹ بینک کے حکام کا کہنا تھا کہ ’فروری 2022 سے ملک میں معاشی پالیسیاں عدم استحکام کا شکار ہیں، حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد ملک کو ایک مرتبہ عدم استحکام کا سامنا ہے، روپیہ پر دباوٴ کرنٹ بڑھتے اکاوٴنٹ خسارے اور درآمدی بل کے باعث ہے، درآمدی بل میں کمی کیلئے الیکٹرک مشینری پر پابندی عائد کی گئی ہے‘۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط پر تمام مشکل معاہدوں پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے، درآمدی بل بہت زیادہ ہے جس کو فورا کم کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کا 70 فیصد کے برابر ہے۔
اسٹیٹ بینک حکام کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم یہ نہیں کہیں گے کہ گھبرائیں نہیں، ہم کہتے ہیں گھبرالیں مگر زیادہ نہ گھبرائیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رواں مالی سال عالمی معیشت کیلئے مشکل ترین سال ہے اور آئی ایم ایف نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے، اس وقت عالمی سطح پر جو معاشی صورت حال ہے وہ کورونا سے زیادہ خطرناک ہے‘۔