Get Alerts

بلوچستان کے عوام کا دو رویہ سڑک کا مطالبہ کیوں؟

بلوچستان کے عوام کا دو رویہ سڑک کا مطالبہ کیوں؟
5 ستمبر 2005 سردیوں کی رات، 10 بج کر 40 منٹ کے قریب کا وقت۔ اسد اور ان کے خاندان کے لئے بھولنا ناممکن ہے کہ جب وہ کراچی کوئٹہ شاہراہ پر خضدار سے کوئٹہ گاڑی چلا کر آ رہے تھے کہ ان کا قلات سے آگے کچھ فاصلے پر ویران علاقے میں ایک مزدہ ٹرک کے ساتھ ایکسڈنٹ ہو گیا۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں انہیں پتہ چلا کہ حادثے کے باعث گاڑی میں ان کے ساتھ سوار 4 افراد ان کے سسر، 16 سالہ سالی، ایک رشتہ دار اور رشتہ دار کا 5 سالہ بیٹا جاں بحق ہو گئے ہیں۔

40 سالہ اسد ایک نجی تعلیمی ادارے میں لائبریری انچارج ہیں۔ حادثے کے وقت ان کی عمر 25 برس تھی کہ جب انہوں نے مختلف سرکاری آسامیوں پر بھرتی کے لئے ٹیسٹ انٹرویو دیے تھے اور وہ سرکاری ملازمت کی تلاش میں تھے۔ ان کے مطابق ان کے دماغ، جبڑے اور 2 بار آنکھ کا آپریشن ہو چکا ہے جب کہ کچھ ماہ بعد آنکھ کا ایک آپریشن مزید ہونا ہے۔ حادثے میں ان کے ماتھے کی ہڈی بھی ضائع ہو چکی ہے۔ اپنے علاج کے دوران ان کی سرکاری نوکری کے حصول کی عمر بھی نکل گئی جس کا افسوس انہیں اپنے مالی حالات دیکھ کر آج بھی ہوتا ہے۔

کراچی کوئٹہ خونی شاہراہ کیوں؟

کراچی کوئٹہ شاہراہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں قاتل شاہراہ کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق صوبے میں ٹریفک حادثات میں سالانہ 6 ہزار لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جب کہ 18 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوتے ہیں جس کے تناسب سے مہینے کے 5 سو اور دن میں 16 بندے مر رہے ہیں جس کی تعداد ہشت گردی میں مارے جانیوالے افراد کی شرح سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ موٹروے پولیس ذرائع کے مطابق موٹروے کی رینج میں ایکسڈنٹ سے سالانہ 73 افراد جاں بحق ہوتے ہیں جو کہ بغیر رینج والے علاقوں کی شرح سے انتہائی کم ہے۔

بلوچستان میں کتنے کلو میٹرہائی ویز ہیں؟

پورے پاکستان کی نسبت سب زیادہ بلوچستان میں 4400 کلومیٹر پر محیط ہائی ویز کی لمبائی ہے جس میں موٹروے پولیس کے پاس ٹوٹل لمبائی کا 513 کلو میٹر کوئٹہ سے قلات، اوتھل سے کراچی اور گودار سے پسنی تک کا علاقہ ہے جو کل ہائی وئے کا صرف 11 فیصد بنتا ہے۔ موٹروے پولیس ویسٹ زون کا قیام 2008 میں عمل میں لایا گیا لیکن 12 سال گزرنے کے باوجود بلوچستان حکومت کی طرف سے موٹروے پولیس کو دفتر کی عمارت بنانے کے لئے کوئی سرکاری اراضی فراہم نہیں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق صوبے میں موٹرووے پولیس کے 800 اہلکار تعینات ہیں اور 15 دفاتر ہیں جن کا سالانہ کرایہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے جب کہ صوبے میں موٹروے پولیس کی کوئی موبائل ورکشاپ بھی نہیں ہے اور وفاق کی جانب سے محکمے کواکثر وسائل میں شدید کمی کا سامنا بھی رہتا ہے۔

بلوچستان ہائی کورٹ میں کیس کس نے دائر کیا؟

26 نومبر 2019 کو ضلع ژوب سے تعلق رکھنے والے ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ عبدالواحد کاکڑ نے بلوچستان ہائی کورٹ میں کوئٹہ، ژوب، ڈی آئی خان ہائی وئے پرموٹروے پولیس کی عدم تعیناتی کے باعث حادثات میں سینکڑوں افراد کی اموات کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت چیف جسٹس بلوچستان جسٹس جمال خان مندوخیل خود کر رہے ہیں۔ عبدالواحد کاکڑ ایڈووکیٹ کے مطابق انہوں نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ موٹروے پولیس ویسٹ زون سے ایک ہی دن 20 مارچ 2019 کو گریڈ 14 کے 33 پٹرولنگ آفیسرز کو بلوچستان سے جامشورو ٹرانسفر کر دیا گیا اور ان کی جگہ آج تک صوبے میں متبادل آفیسرز کی تعیناتی نہیں کی گئی ہے جب کہ 22 دسمبر 2014 کوکچلاک پھاٹک تا ژوب گشت کے لئے موٹروے پولیس نے 6 گاڑیاں خریدی ہیں لیکن آج تک ان گاڑیوں کو اس روٹ پر کہیں نہیں دیکھا گیا۔ ایڈووکیٹ عبدالواحد کاکڑ نے اپنی درخواست کے ساتھ دستاویزات بھی منسلک کی ہیں جن میں اگست، ستمبراور اکتوبر میں قلعہ سیف اللہ اسپتال کا روڈ ایکسڈنٹ کا ڈیٹا بھی شامل ہے جس میں صرف تین ماہ میں 549 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ فوت ہونے والوں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔ اس کیس کی اگلی سماعت 25 جون 2020 کو ہوگی۔

حادثات کی وجوہات کیا؟

ڈی آئی جی موٹروے پولیس ویسٹ ذون علی شیر جھکرانی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں 95 فیصد ڈرائیورز کے پاس لائسنس نہیں، گاڑی کی فٹنس چیکنگ نہیں ہوتی، ڈرائیورز کو معلوم نہیں ہوتا کہ ٹائر کی معیاد کیا ہے اور کیا ٹائر اس قابل ہے کہ اسے زیادہ رفتار سے چلایا جائے جب کہ بلوچستان میں سڑکوں کی حالت بھی کافی خستہ حال ہے۔ مسافر بسوں کے ڈرائیورز کم ہوتے ہیں اور وہ 36 گھنٹے تک گاڑی چلاتے ہیں۔ موٹروے کی حدود میں مسافر بسیں مناسب رفتار پر آتی ہیں لیکن قلات اور اوتھل کے درمیان کا علاقہ جو موٹروے کی رینج میں نہیں آتا، وہاں سے ڈرائیورز تیز رفتاری کرتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے موٹروے پولیس میں لوکل سٹاف کا کوٹہ 3.5 فیصد تھا، جسے اب 52 فیصد کر دیا گیا ہے جب کہ سبی جیکب آباد کا سٹاف منظور ہو چکا ہے۔ ایک سال بعد روٹ بھی منظور ہوجائے گا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کا واک آؤٹ

4 جون کو وفاقی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی زیر صدارت منعقد ہونیوالے سالانہ منصوبہ بندی کمیشن کے ویڈیو لنک اجلاس سے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا تھا جس کے بعد بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وفاق نے صوبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور ہماری کئی اہم سکیمز بھی موجودہ پی ایس ڈی پی سے نکال دی گئی ہیں جس پر وزیر اعلیٰ بلوچستان اور انہوں نے ویڈیو لنک اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ہے۔

سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے خطاب میں کیا کہا؟

18 جون کوقومی اسمبلی کے بجٹ سیشن اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی ٹو کوئٹہ-کوئٹہ ٹو چمن شاہراہ جو بلوچستان کے اضلاع لسبیلہ، قلات، مستونگ، پشین اور چمن جاتی ہے کی بنیاد 1973 میں رکھی گئی تھی۔ اس شاہراہ پر روزانہ لوگ حادثات سے مر رہے ہیں۔ ہم نے پچھلی پی ایس ڈی پی میں درخواست کی تھی کے ہمیں 6 لائنوں کی موٹروے نہیں چاہیے، ہمیں صرف ڈبل رویہ سڑک دے دیں۔ یہ سڑک کوسٹل ہائے وے، سی پیک روٹ بیسمہ سوراب سے رتو ڈیرو ٹو خضدار اور نوشکی کے راستے تفتان تک جاتی ہے لیکن افسوس اس منصوبے کو موجودہ پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا ہے۔



بلوچستان میں اسد کے واقعہ کی طرح کئی خاندانوں کی درد ناک کہانیاں موجود ہیں جن کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ سال 2020-21 میں بھی کراچی کوئٹہ شاہراہ ڈبل نہیں بن سکے گی اور اسی طرح بلوچستان کے لوگ حادثات میں اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔