’میری گاڑی کیوں خراب کی؟‘ نوجوان نے خود کو گولی مار کر جان لے لی

’میری گاڑی کیوں خراب کی؟‘ نوجوان نے خود کو گولی مار کر جان لے لی
اسلام آباد: گذشتہ روز خیبر پختون خوا کے ضلع چارسدہ کے نوجوان طالب علم عسکر خان نے اپنے اوپر فائر کر کے زندگی کا خاتمہ کیا اور جمعے کے روز چارسدہ میں شام سات بجے اُن کا نماز جنازہ ادا کیا گیا اور اُن کو ہزار اشکبار آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔

چوبیس سالہ عسکر خان کا تعلق چارسدہ سے تھا اور وہ ایک خوشخال گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ ایڈورڈز کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پیس اینڈ کنفلیکٹ سٹڈیز میں داخلہ لیا اور وہاں پر ماسٹرز کے دوسرے سمسٹر کے طالب علم تھے۔

اُن کے ایک کزن نے نیا دور میڈیا کو ٹیلیفون پر بتایا کہ وہ والدین اور گھر والوں کا لاڈلہ بچہ تھا اور اسی وجہ سے والدین نے اُن کو شروع سے ایک گاڑی دی تھی جہاں وہ چارسدہ سے اپنی گاڑی میں کالج اور یونیورسٹی جاتا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ عسکر خان کے شخصیت میں ایک چیز تھی کہ وہ اپنی گاڑی سے بے پناہ لگاؤ رکھتا تھا اور اگر کوئی اس کی گاڑی کو ہلکا سا نقصان بھی پہنچاتا تھا تو ان کا غصہ کنٹرول سے باہر ہو جاتا تھا اور پھر ان کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جس دن بارش ہوتی تھی تو عسکر خان اپنی گاڑی  کی بجائے ابو کی گاڑی لے کر کالج اور یونیورسٹی جاتا تھا اور کہتا تھا کہ آج بارش ہے، میری گاڑی خراب ہو جائے گی تو اس لئے ابو کی گاڑی لے کر جا رہا ہوں۔

انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ یونیورسٹیاں بند ہیں تو زیادہ تر وقت گھر میں گزارتا تھا اور انھوں نے ٹھیک دس بجے آن لائن کلاس بھی لی جس کے ثبوت انھوں نے نیا دور میڈیا کو فراہم کیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسی دن ان کی بہن ان کے گھر آئی تھی اور ان کے بچوں نے عسکر خان کی گاڑی پر کچھ نشان بنائے تھے جس پر وہ آگ بگولہ ہو گئے اور بچوں کو مار کر مزید غصہ ہو رہے تھے جس کے بعد ان کے والدین نے اُن کو ڈانٹا۔ دلبرداشتہ ہو کر وہ گاڑی گھر سے نکال کر باہر لے آئے اور پستول سے خود پر فائرنگ کی اور موقع پر جان بحق ہو گئے۔

سوشل میڈیا پر پلیٹ فارم پر Learner نامی اکاؤنٹ سے ٹوئیٹ کی گئی جس میں انھوں نے کہا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ وہ خودکشی کر سکتا ہے اور وہ ایڈورڈز کالج میں میرے شاگرد تھا۔ وہ ایک اچھے انسان تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا‘‘۔

نیا دور میڈیا کو اس کے ایک کلاس فیلو حمید اللہ نے بتایا کہ وہ بظاہر ایک معتدل شخص اور سب کا خیال رکھتے تھے مگر اپنی گاڑی سے اُن کو بے پناہ لگاؤ تھا اور شائد یہی لگاؤ ان کے زندگی لے گیا۔

رابعہ خان اسلام آباد میں ایک ماہر نفسیات ہیں اور وہ نوجوان طالب علموں کے ساتھ زیادہ تر کونسلنگ کرتی ہے۔ انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ زیادہ تر میرے پاس وہ نوجوان آتے ہیں جو یونیورسٹیوں میں طالب علم ہیں اور اُن میں خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نوجوان مخلتف قسم کے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس میں تعلیمی بوجھ اور یونیورسٹیوں کی جانب سے غیر حقیقی طریقہ کار، مالی مسائل اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کی پریشانیاں شامل ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کے خوف اور پھر مسلسل لاک ڈاؤن سے نفسیاتی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں بلکہ میں کہوں گی کہ خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں، مگر حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں جس سے خاص کر نوجوانوں میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔

رابعہ نے کہا کہ ہم اگر عسکر خان کے واقعے کو دیکھیں تو اس میں صاف ظاہر ہے کہ کچھ لوگوں کو انسانوں سے جنون کی حد تک وابستگی ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کو مختلف اشیا سے اور عسکر خان کے واقعے سے بھی یہی لگتا ہے کہ ان کو اپنی گاڑی سے جنون نہیں بلکہ پاگل پن کی حد تک لگاؤ تھا۔ اس کو ہم نفسیات کے علوم میں Obsession کہتے ہیں اور اس نوجوان طالب علم کو بھی اپنی گاڑی سے obsession تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بعض لوگوں کو جنسی، روحانی obsession ہوتا ہے اور عسکر خان کو گاڑیوں کے ساتھ Obsession تھا۔ گاڑی کو نقصان پہنچنے کے بعد وہ اس کو برداشت نہیں کر سکا اور اپنی جان لے لی جو بنیادی طور پر ایک Mental Health Disorder ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔