جمہوریت کی جدوجہد میں بے نظیر بھٹو کا نام استعارہ بن کر زندہ رہے گا

جمہوریت کی جدوجہد میں بے نظیر بھٹو کا نام استعارہ بن کر زندہ رہے گا
21 جون 1953 وہ شاندار دن تھا جب محترمہ بینظیر بھٹو نے جنم لیا تھا۔ اپنے عظیم والد کی طرح وہ بھی پیدائشی قائد تھیں اور آگے چل کر پاکستان کے کروڑوں عوام کی رہنمائی کر کے عوام کی امید اور جدوجہد کی علامت بنیں۔ آج شہید بی بی کی 70 ویں سالگرہ مناتے ہوئے میرے ذہن میں ان کی بصیرت اور مستقبل سے ہم آہنگ پالیسیوں کے علاوہ ملک کے غریب عوام سے ان کی محبت اور پھر ان کے ساتھ گزرے انمول لمحات کی یادیں تازہ ہو کر ابھر رہی ہیں۔

شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی تربیت میں ذوالفقار علی بھٹو کی خصوصی دلچسپی شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد سے بہت متاثر تھیں اور کیوں نہ ہوتی، ان کے مزاج میں نفسیات سے سلیقہ تک اور قوم سے محبت کا جذبہ وراثت میں ملا تھا۔ بینظیر بھٹو اپنے والد سے بہت حد تک متاثر تھیں۔ ان کی پوری زندگی سیاست کے لئے وقف تھی اور گھر کو بہت کم وقت دیتی تھیں۔

بین الاقوامی سطح پر محترمہ بے نظیر بھٹو خواتین کے حقوق کی بہت بڑی علمبردار سمجھی جاتی ہیں۔ حقوق نسواں کی علمبردار ہونے کی ایک وجہ تو جاگیردار سندھی گھرانے سے ان کا تعلق ہے جس کے باعث سندھ میں خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کی کہانیاں انہوں نے نا صرف سنیں بلکہ خود دیکھی بھی تھیں اور ان کے فیصلے بھی کئے۔ اس کا دوسرا محرک ہاورڈز کے زمانہ طالب علمی میں حقوق نسواں کی تحریک سے آگاہ ہونا ہے۔ جن دنوں آپ ہاورڈز میں زیر تعلیم تھیں تو امریکہ میں حقوق نسواں کی تحریک عروج پر تھی۔ آپ نے اپنی سہیلیوں اور ساتھی طالبات کے ساتھ مل کر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہاسٹل میں آپ کا کمرہ خواتین کے حقوق کی تحریک کا ایک مرکز تھا۔

بینظیر بھٹو کا سفر کبھی ختم نہیں ہوا۔ مری کی درسگاہ ہو یا ہاورڈز اور آکسفورڈ یونیورسٹی، بے نظیر کی سیاست کا محور پاکستان کے کچلے ہوئے طبقات کی نمائندگی کے ساتھ ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد تھی تا کہ جمہوریت کی بحالی کی صورت میں عوامی مسائل کو حل کیا جا سکے۔ بینظیر بھٹو نے دنیا کی بہترین تعلیمی درسگاہوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور عوام سے رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔

بینظیر بھٹو ایک نڈر خاتون تھیں۔ والد کا عدالتی قتل اور بھائیوں کی جدائی کا صدمہ وہ دلیرانہ انداز میں برداشت کرتی رہیں۔ کبھی وہ عوامی خدمت سے دلبرداشتہ نہیں ہوئیں۔ اپنوں کی لاش کو دیکھنے کے باوجود دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتی رہیں۔ ان کو توڑنے والوں کے خواب چکنا چور ہوئے مگر وہ محبت اور حوصلے کے ساتھ عوام کے حقوق کی بحالی کیلئے اپنے باپ کے راستے پر چلتی رہیں اور کٹھن حالات میں انہوں نے ڈٹ کر تمام مخالفین کا جمہوری طور پر مقابلہ کیا۔ بینظیر بھٹو شہید نے سیاسی میدان میں انقلاب برپا کرنے کے ساتھ اپنی نجی زندگی کو بھی مشرقی روایات اور اسلامی اقدار سے علیحدہ نہیں کیا۔ وہ ماں کی غم خوار بیٹی تھیں، بھائیوں کیلئے ان کا دل محبت سے سرشار رہتا تھا اور وہ ان کے بچھڑنے کا دکھ اپنے دل میں سمیٹے ہوئے صدیوں کی غم زدہ بہن دکھائی دیتی تھیں۔ ان کی اپنے شہید باپ سے محبت کا والہانہ اظہار بھی یہی ہے کہ وہ شہید قائد عوام کے راستے کو چھوڑنے کا تصور نہیں کر سکتی تھیں۔ شہید بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے جس قدر غم و آلام اور تکالیف کا سامنا کیا اس کی نظیر تاریخ میں بہت کم ہی ملتی ہے۔ جو سیاسی ہمت و حوصلہ بینظیر بھٹو کے حصے میں آیا وہ تاریخ سیاست میں کسی اور کو آج تک نصیب نہیں ہوا۔

بینظیر بھٹو پاکستان کی ایک روایتی مشرقی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ اس عظیم مشن کیلئے بھی سیاسی کردار ادا کرتی رہیں جس کا کوئی مرد سوچ بھی نہیں سکتا۔ اتنے کٹھن مرحلوں پر تو بڑے بڑے دل والے مرد بھی حوصلہ ہار جاتے ہیں مگر شہید بینظیر بھٹو کی جدوجہد ان کے عزم و استقلال کے جذبے کی عکاس ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اندرونی و بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی تنہا خاتون تھیں جو چادر اور چار دیواری میں بھی ایک مثالی کردار اد ا کر رہی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک مشرقی فرمانبردار اور وفا شعار بیوی تھیں۔ بچوں کے لئے ایک مثالی ماں بھی تھیں۔ یہ بھی شہید بی بی کا خاصا ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر اپنے بچوں سے ایک لمحے کیلئے بھی غافل نہیں رہیں۔ وہ قومی مفادات اور عوام کے حقوق کی جنگ میں بھی اپنے گھر کی پاسداری کرتی رہیں۔ شہید بی بی نے جدوجہد کی ایسی تاریخ رقم کر ڈالی جو نا صرف مشرقی خواتین کے لئے مثالی ہے بلکہ سیاسی کردار ادا کرنے والے کہنہ مشق سیاست دانوں کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔

شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے سچے جذبوں سے ملک و قوم کی خدمت کا جو ذمہ اٹھایا اس پر کاربند رہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بطور ایک رہنما اور رہبر کے جدوجہد کرتی رہیں۔ یہ ازلی حقیقت ہے کہ قدرت جب کسی شخصیت سے کوئی کام لینا چاہتی ہے تو اس کے لئے مخصوص حالات پیدا کر دیتی ہے۔ جمہوریت پسندوں کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا نام ہمیشہ جدوجہد کی علامت بن کر موجود رہے گا۔ قومی مفاہمت اور معاف کرنے پر مبنی ان کی بصیرت آج بھی ان کے سیاسی ورثا کے لئے مشعل راہ ہے جو اس وقت ان منفی قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہیں جو پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کے درپے ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی بھی پاکستانی عوام کے لئے وقف رہی اور انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پاکستان کو بچانے اور جمہوریت کی بحالی اور جدوجہد کیلئے پیش کر دیا۔ اب پوری دنیا جانتی ہے کہ شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے پوری طرح آگاہ تھیں۔ جب لوگوں نے انہیں ان خطرات کے بارے میں بتایا تو ان کا جواب تھا کہ اگر وہ پاکستان نہیں آتیں تو ان کی پارٹی کمزور ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی سلامتی اور وحدت کیلئے خطرات بڑھ جائیں گے۔

اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو کا دل غریب عوام کی ہمدردی سے موجزن تھا۔ معاشرے کے محروم طبقات کے لئے امید کی کرن بن کر قومی سیاسی افق پر طلوع ہوئیں۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ اس ملک کے اصل وارث آپ ہیں اور آپ کو محفوظ معاشی مستقبل فراہم کیا جائے گا۔ یہاں میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں محترمہ بینظیر بھٹو کے سنہری الفاظ کو دہرانا چاہوں گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں پاکستان کے مستقبل سے متعلق پرامید ہوں، مجھے یقین ہے کہ ایک ایسی قوم جو جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی مواقع کی خواہاں ہے وہ دن دیکھنے کی متمنی ہوں۔

جب دنیا میں پاکستان انتہا پسندی اور آمریت جیسی رکاوٹوں کے سبب ایک حقیقی جمہوریت کے طور پر سامنے آئے گا محترمہ کے مذکورہ الفاظ پاکستان کے بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی بصیرت کی بھرپور عکاسی کرتے رہیں گے۔

بشیر نیچاری کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ سماجی اور سیاسی کارکن ہیں۔