سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے سمری کا نہ آنا بہت بڑی ناکامی اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم اس کا ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سمری کا نہ آنا بہت بڑی ناکامی اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم اس کا ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔ جس پر کارروائی ہو سکتی ہے تاہم وہ بھی تعیناتی کے بارے میں ابہام پیدا کردے گا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر معمول کا عمل ہے۔ وزیراعظم کے پاس سمری آتی ہے اور وہ تقرر کر دیتے ہیں۔ آرمی چیف کا تقرر آخری 2 سے 3 دن میں ہی ہوتا ہے۔ سمری کا نہ آنا پیچیدہ بات ہے اور یہ ایک غیر قانونی عمل ہو گا۔
واضح رہے کہ آج قومی اسمبلی کی سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دو تین روز میں آرمی چیف کی تقرری کا تمام مرحلہ مکمل ہوجائے گا اور یہ ہیجان ختم ہوجائے گا۔سمری روایت ہے قانونی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد عمران خان کے ساتھ بھی دو ہاتھ کرلیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ایک اہم ادارے کے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے غلط خبریں چلیں۔ اس ادارے کا ماضی میں ایک کردار رہا ہے۔ وہ کردار ماورائے آئین رہا ہے۔ آج وہ ادارہ آئین کے تحت کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ آج 75سال بعد اگر ادارہ آئین کے تابع رہنا چاہتا ہے تو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔
خواجہ آصف نے عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اپنے اقتدار کے لیے یا اقتداری کی جدائی اور غم میں پاگل ہوئے ہیں۔ ان حربوں سے ملک اور قوم کی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اداروں کی عزت اور احترام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
وزیردفاع نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہی اداروں نے 4 سال غیرمشروط ان کے ساتھ تعاون کیا۔ اس کے باوجود وہ کچھ نہیں کرسکے اور ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی چھوڑ کر گئے ہیں تو انہیں شرمندہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے 15 سال پلاننگ کی گئی۔ یہ ایک شرمناک داستان ہے۔ صرف سیاستدان نہیں پاور اسٹرکچر کے تمام ذمہ داران ملوث رہے ہیں۔
وزیردفاع نے کہا کہ توشہ خانہ سے تحائف ہماری حکومت سمیت سب نے لیے لیکن یہ پہلا شخص ہے جس نے وہ تحائف بیچ ڈالے، ابھی اور چیزیں آرہی ہیں کہ انہوں نے بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کا کاروبار بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حامد میر نے مجھے بتایا کہ عمران خان نے بھارت سے ملنے والا گولڈ میڈل بھی بیچ دیا ہے، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ اس طرح کا شخص اقتدار میں کیسے آیا۔ عمران خان کو لیڈرتسلیم کرنا ہی قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اسی حال میں جب تحریک عدم اعتماد آئی تو عمران خان نے کہا کہ یہ امریکی سازش ہے۔ وہ اس بات سے انحراف نہیں کر سکتے لیکن اب چند ماہ کے بعد ان کو یہ خیال آگیا کہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا ۔
انہوں نے عمران خان کی مبینہ آڈیو لیک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آڈیو میں بھی تو کہا تھا نا اس نے کہ سائفر سے کھیلنا ہے بس نام نہیں لینا۔ وہ امپورٹڈ حکومت، بیرونی سازش، حقیقی آزادی سب کہاں گئے۔ امریکہ کو انہوں نے بے قصور قرار دے دیا۔ دوسرا الزام تھا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تحریک عدم اعتماد میں ہماری مدد کی ہے ان کو بھی بری الذمہ قرار دے دیا۔ شکر ہے کہ انہوں نے تسلیم کر لیا کہ یہ نا تو امریکی سازش تھی نا ہی ایجنسیوں کا کام تھا بلکہ اسی ایوان کے ممبران کا کام تھا کہ انہوں نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹ کیا۔ انہوں نے ایک اور بات کہی تھی کہ کم از کم 'وہ' روک تو سکتے تھے نا۔ مطلب ہم جو یہاں پر آئین کے تحت کوئی کارروائی کر رہے تھے اس کو روکنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دی جارہی تھی۔