آئین پاکستان اور دھرنا

آئین پاکستان اور دھرنا
ہمارا آئین جسے ''چند صفحوں کی کتاب ہے'' کہا جاتا ہے، لیکن دیکھا جائے تو پاکستان کا ایسا کونسا مسئلہ ہے جس کا حل اس چند صفحوں کی کتاب میں موجود نہ ہو۔ یہ چند صفحوں کی کتاب میں شقوں کی صورت تمام مسائل کا حل ایسے پرویا ہوا ہے جیسے ایک لڑی میں موتی پروئے ہوتے ہیں۔ آپ آئین کے دیباچے کو غور سے پڑھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اقتدار کی ہوس کا کوئی جواز بنتا ہے۔ ریاستی پالیسی اصولوں پر بنے تو اندرونی و بیرونی دہشت گردی، قومی سلامتی، فرقہ واریت، نسلی و صوبائی تعصب، اقلیت کے حقوق، عورتوں کی نمائندگی سے لیکر یمن فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے تک کا حل آئین میں موجود ہے۔

اسی طرح آپ جوں جوں آئین کے مطابق عمل کرتے جائیں گے مسائل وسائل میں بدلتے جائیں گے۔ اس چند صفحوں کی کتاب میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پر بھی اتنی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے کہ کوئی ادارہ دوسرے ادارے کی حدود کے پاس بھی نہ بھٹکے گا۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، ان کے اختیارات، تقریاں، چناؤ، مالی وسائل جیسے مسائل کو ایسی خوبصورت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اگر عمل ہو جائے، تو نہ تو کوئی چھوٹا صوبہ کسی محرومی کا رونا روئے گا اور نہ کسی بڑے صوبے کی طرف کوئی انگلی اُٹھے گی۔ یونین کونسل کے جنرل کونسلر سے لیکر ملک کے صدر تک کے انتخاب کا طریقہ کار موجود ہے تاکہ دھاندلی کے لیے لانگ مارچ نہ کرنا پڑ ے۔ اسی طرح درجہ چہارم سے لیکر ملک کے وزیراعظم تک سب کے اختیارات اور ذمہ داریوں کا احاطہ بھی کیا گیا ہے تاکہ تمام لوگ اپنی اپنی قابلیت اور ایمانداری کے ساتھ امور سر انجام دے سکیں، لیکن قابلیت اور ایمانداری کی تعریف غیور عوام کے لیے چھوڑ دی گئی ہے۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ 1973 کا یہ آئین ہمارے قومی اتحاد کی پہلی اور شاید آخری نشانی بھی ہے۔ متفقہ طور پر آئین منظور ہونے کے باوجود آج بھی چھوٹے صوبے وفاق سے نالاں رہتے ہیں، اکثریت آج بھی اقلیت کے محکوم ہے۔ لسانی، مذہبی، نسلی اور  صوبائی تعصبات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ نام پوچھنے کے بجائے شناختی کارڈ دیکھتے ہی کام تمام کر دیا جاتا ہے۔ کچھ غیرت مند بھائی ایسے ہیں جو اپنی محرومیوں کا بدلہ ایسے لوگوں سے لیتے ہیں جو اپنے علاقے میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے رات کو کھلے آسمان تلے، رات کے چند پہر سونے کے کوشش میں ابدی نیند سلا دیے جاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین تو وفاقی حکومت کو ایسی حکومت بناتا ہے جو تمام اکائیوں سے بنے لیکن افسوس وفاقی حکومت کے لیے جی ٹی روڈ کی اصطلاح بھی سننے کو ملتی رہتی ہے۔

چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت جمہوریت کو مضبوط کرے یا نہ کرے، وفاقی حکومت کا کردار سکڑ ضرور گیا ہے۔ ان سب باتوں کے بعد سوال تو یہ بھی ہے کہ ایک متفق اور جامع آئین ہونے کے باوجود وطن عزیز کے مسائل حل کیوں نہیں ہو رہے۔ تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو چاہے ان کا لباس کالا ہو، سفید ہو یا پھر خاکی ہو آئین سے محبت صرف اس وقت ہوتی ہے جب کرسی آ رہی یا کرسی جا رہی ہو، اس کے بعد آئین کی جگہ انا لے لیتی ہے اور پھر فیصلے آئین کی کتاب کے مطابق نہیں کچن کیبنٹ یا شاہی خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں۔

دور جدید میں کامیاب ریاست اور خوشحال قوم، آئین کی عزت سے مشروط ہے۔ امریکی صدر ابراہم لنکن جس نے امریکہ میں غلامی کے نظام کو ختم کر کے خود کو تاریخ میں امر کر دیا تھا، کیا خوب کہا تھا:

 Don't interfere with anything in the constitution. That must be maintained, for it is the only safeguard of our liberties


ابراہم لنکن کے اس قول کے تناظر میں اگر میں اپنی آئینی و سیاسی تاریخ پر نظر ڈالوں تو رونے کے لیے آنسو اور ہنسنے کے لیے مسکراہٹ ادھار بھی نہیں ملتے۔ اٹک اور لاہور کے شاہی قلعوں کی موجودگی میں تو ہم قلعوں کے معاملے میں خود کفیل تو تھے پھر بھی ہم نے اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنانے کی ٹھان لی۔

سنتے ہیں کہ لاہور کے شاہی قلعے کے نیچے ہزاروں مزدوروں کی لاشیں پڑی ہیں۔ اسلام کا قلعہ بھی لاکھوں لاشوں سے استوار ہو رہا ہے لیکن اسلام اور اس ملک کی عوام میں دو چیزیں مشترک ہی رہی ہے کہ ایک تو دونوں دن بدن غریب ہوتے گئے اور دوسرا دونوں قربانیاں دے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب اس قلعے کو اسلام سے اور اسلام کو اس قلعے سے آزادی نہیں ملتی۔

مولانا فضل الرحمان صاحب ہر بات تو آئین کے تناظر میں کرتے ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ آئین پاکستان کی پوری کتاب میں دھرنے کا لفظ کہیں بھی نہیں ہے تو کیا آپ کا دھرنا آئینی ہو گا یا پھر غیر آئینی۔