نواز شریف کے لیے سب اچھا نہیں، کئی چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں

اگر ن لیگ پنجاب میں زیادہ تر سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے لیکن نواز شریف کو کہا جائے کہ آپ سکون سے بیٹھ جائیں اور ایک ایسے سیٹ اپ کی حمایت کریں جس میں ان کے بھائی شہباز شریف کو پھر سے وزارت عظمیٰ پر فائز کر دیا جائے تو کیا ہو گا؟

نواز شریف کے لیے سب اچھا نہیں، کئی چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں

16 سال قبل ہیتھرو ایئرپورٹ کے ٹرمینل تھری پر نواز شریف پارٹی کے پُرجوش وفاداروں، خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے حامیوں اور پاکستانی صحافیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ میں گھرے کھڑے تھے۔ لندن میں درجہ حرارت عام طور پر ستمبر میں کم ہونا شروع ہو جاتا ہے، پتوں کے جھڑنے سے پہلے درخت سنہرے ہو جاتے ہیں اور موسمی اداسی چھانے لگتی ہے۔ تاہم نواز شریف کے ساتھیوں کے چہروں پر اداسی کا کوئی اشارہ نہیں تھا جو اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے سے قبل تصویریں بنا رہے تھے، لطیفے سنا رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔ بظاہر ان کی پرواز Xanadu کے لیے بک کروائی گئی تھی۔ نواز شریف کی ٹیم کی جانب سے آخری لمحے میں پاکستانی حکام کو حیران کرنے کی ایک کوشش کی گئی جب انہوں نے گلف ایئرلائن کی پرواز چھوڑ کر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی پرواز 747 پکڑ لی۔ کیا فوجی انتظامیہ کو لینڈنگ سے محض آٹھ گھنٹے قبل ایسے کسی ہتھکنڈے سے واقعی حیران کیا جا سکتا ہے جبکہ آپ کی روانگی ٹیلی وژن پر نشر ہو رہی ہو اور پرواز کا راستہ پہلے سے مقرر ہو؟

کچھ لمحاتی تذبذب کے بعد شہباز شریف نے لندن میں ہی رہنے کے لیے 'رضامندی' ظاہر کر دی کہ اگر نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا تو پارٹی کو چلانے کے لیے انہیں موجود ہونا چاہئیے۔ جنرل مشرف کے پاکستان میں لوٹنے پر نواز شریف کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا، یہ کسی کے علم میں نہیں تھا۔ تاہم ان میں سے بہت سے لوگ جانتے تھے کہ شہباز شریف کے ساتھ مئی 2000 میں کیا ہوا تھا جب وہ اپنی جلاوطنی ختم کر کے لاہور ایئرپورٹ پر اترے تھے۔ شہباز شریف کو تب لینڈ کرتے ہی فوری طور پر سعودی عرب روانہ کر دیا گیا تھا۔

پاکستان ابھی 4 ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر تھا لیکن برطانوی حکام نے جنرل مشرف کے اہکاروں کو ہیتھرو ایئر پورٹ پر ٹرمینل کے اندر گھسنے کی اجازت دے دی تھی۔ اہلکار یہ حساب لگا رہے تھے کہ سابق وزیر اعظم جو جلاوطنی میں 7 سال گزارنے کے بعد واپس آ رہے تھے ان کے ساتھ کتنے لوگ پاکستان آئیں گے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے سٹیشن ہیڈ اس لابی کے بالکل باہر بیٹھے تھے جہاں پرواز سے پہلے کی تقریب زوروں پر تھی۔ ہماری ایک دوسرے پر نظر پڑی۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیے مجھے روک کر پوچھا کہ نواز شریف کے ساتھ کتنے غیر ملکی صحافی سفر کر رہے ہیں اور کیا مجھے ان کے ناموں اور اداروں کے متعلق کچھ معلوم ہے۔ کندھے اچکاتے ہوئے میں نے سوچا کہ مجھے کیسے پتہ ہو سکتا ہے۔ وہ مسکرائے اور مجھے سفر بخیر کہا۔ اس کے بعد بولے؛ 'غوری صاحب! اسلام آباد آمد پر تمام صحافیوں کے ساتھ عام مسافروں جیسا سلوک کیا جائے گا'۔ لابی کی جانب بڑھتے ہوئے میں نے انہیں جواب دیا؛ 'جناب! ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم عام لوگ ہیں'۔ عجیب بات ہے، 2007 کا یہ منظر ابھی کل کی بات لگتا ہے۔

2023 میں موسم کافی حد تک ویسا ہی ہے جیسا 2007 میں تھا۔ اکتوبر کی بارشوں نے پاکستانی موسم گرما کی سختی کو قدرے کم کر دیا ہے۔ تاہم سیاسی درجہ حرارت کئی درجے بڑھنے والا ہے۔ نواز شریف کا دائروی سفر ایک بار پھر ان کا امتحان لینے والا ہے۔ اگرچہ اس مرتبہ وطن واپسی پر نواز شریف کا سامنا اس فوجی جرنیل سے نہیں ہو گا جس نے ربع صدی قبل انہیں حکومت سے نکال کر جلاوطن کر دیا تھا۔ لیکن اس بار نواز شریف کو یقینی طور پر ایک قانونی گھن چکر کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ فوجیوں ہی کے ایک گروہ نے انہیں سیاست کے میدان سے تاحیات بے دخل کرنے کے لیے اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں جب سے نواز شریف نے راولپنڈی کے ساتھ سینگ پھنسائے تھے، فوج کے اندر ادارے کی یادداشت وہیں پر منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔

چونکہ پاکستانی سیاست آج کل بنیادی طور پر ٹیلی ویژن سکرینوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے، اس لیے اب کئی دنوں سے پاکستان مسلم لیگ ن درجنوں پرائم ٹائم ٹاک شوز میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ سست رو ٹی وی اینکرز انہی معلومات پر پروگرام کر رہے ہیں جو نواز شریف کی واپسی سے متعلق انہیں شہباز شریف، مریم نواز اور پارٹی کے دیگر رہنما فراہم کر رہے ہیں۔ ملک کے بہت بڑے مسائل اور اس کے لوگوں کی حالت زار کو بھول جائیں؛ عمران خان کے سیاسی مستقبل اور ان کی ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقلی کو ایک طرف رکھ دیں؛ اس بات پر کوئی اعتراض نہ کریں کہ پاکستان تحریک انصاف اس دباؤ سے نبرد آزما ہے جو ان پر نادیدہ قوتوں کی جانب سے ڈالا جا رہا ہے؛ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے 'لیول پلیئنگ فیلڈ' کی عدم موجودگی کی شکایات کو بھی ایک طرف رکھ دیں؛ ملک کی مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کی پھر سے اٹھتی لہر اور اندرون ملک بگڑتے ہوئے امن و امان سے متعلق بھی آنکھیں بھینچ کر بند کر لیں حالانکہ ہر پریس کانفرنس میں نگران حکومت کے نمائندوں سے اسی سے متعلق سوال جواب ہو رہے ہیں۔

فی الحال ملک کا سب سے اہم معاملہ 'مردِ آہن' کی واپسی دکھائی دے رہا ہے۔ ان کا خاندان، قریبی ساتھی، ان کی جماعت کے پیروکار اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر نواز شریف آئندہ انتخابات کے لیے انتخابی مہم کی قیادت نہیں کریں گے تو پارٹی ختم ہو جائے گی۔ پارٹی کے بعض رہنما اگرچہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنتے دیکھ کر شیخی بگھار رہے ہیں تاہم یہ معاملہ ابھی شکوک و شبہات سے مبرا نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کہ نواز شریف لاہور میں اتریں گے، اقبال پارک پہنچیں گے، ایک 'تاریخی' عوامی جلسے سے خطاب کریں گے اور پھر جاتی عمرہ میں اپنی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہو جائیں گے، پارٹی کے وفاداروں کے لیے یقیناً بہت اچھی خبر کا کردار ادا کرے گا۔ لیکن اگر وہ لاہور کے بجائے اسلام آباد میں لینڈ کرتے ہیں اور انہیں اسلام آباد میں پہلے سے متعین کردہ کسی رہائش گاہ پر لے جایا جاتا ہے جسے عارضی طور پر سب جیل قرار دے دیا جائے اور انہیں غیر معینہ مدت تک وہیں رکھا جائے تو پھر کیا ہو گا؟

بظاہر نگران حکومت کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تاہم بعض نگران وزرا کے ساتھ ہونے والی کھلی بات چیت کے دوران محسوس ہوا کہ نگران حکومت غریب ملک اور اس کے بے بس لوگوں کے وسیع تر مفاد میں لمبے عرصے تک حکومت میں رہنے کی خواہش رکھتی ہے۔ ان میں سے بعض نگران وزرا سوال اٹھا رہے تھے کہ 'کیا کئی دہائیوں تک اس ملک پر حکومت کرنے والے سیاست دان پاکستان کو درپیش پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟' اگر کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر انتخابات کو آگے دھکیل دیا گیا تو نواز شریف اور ان کی جماعت کیا کر لے گی؟

چند ہفتے قبل ایک منتخب گروہ سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد میں موجود بااثر مغربی سفیروں میں سے ایک نے اسٹیبلشمنٹ کو ڈانس فلور پر ناچتی ایک ایسی دلکش رقاصہ سے تشبیہ دی جس کے ساتھ تمام سرکردہ لوگ ناچنا چاہتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی حقیقت کو تسلیم کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اگر ایسا ہو کہ ن لیگ پنجاب میں زیادہ تر سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے لیکن نواز شریف کو کہا جائے کہ آپ سکون سے بیٹھ جائیں، آرام کریں اور ایک ایسے سیٹ اپ کی حمایت کریں جس میں ان کے بھائی شہباز شریف کو پھر سے وزارت عظمیٰ پر فائز کر دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ ان کی بیٹی مریم نواز اپنی سیاست کا آغاز وہیں سے کر سکتی ہیں جہاں سے کئی دہائیاں پہلے نواز شریف نے سیاست شروع کی تھی یعنی صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا وہ ایسے شخص کا مذاق اڑائیں گے جو 9 مئی کے بعد ادارے کے اندر اپنی جگہ مضبوط کر رہا ہے؟ کیا نواز شریف ایک اور اننگز کی خواہش ترک کرنے پر تیار ہو جائیں گے جو ان کی پچھلی اننگز کی مانند بیچ میں ہی ختم ہو سکتی ہے؟

اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں ہونے والی معمول کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن بعض چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا سکتی ہے۔ بلوچستان میں سیاست دانوں کی ایک نوجوان کھیپ بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ سکتی ہے اور صوبے میں مخلوط حکومت بنا سکتی ہے۔ چونکہ مستقبل قریب کے کچھ اہم ترین ترقیاتی منصوبے بلوچستان میں چل رہے ہیں، اس لیے مستقبل کی سیاست مرکز اور بلوچستان کے مابین تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

نواز شریف کی واپسی طاقت وروں اور طاقت کو کنٹرول کرنے والوں کے مابین ممکنہ افہام و تفہیم کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ تاہم ماضی میں نواز شریف کی طرف سے منتخب کیے گئے لوگوں نے اپنی خود کی لغت تیار کر لی ہے، سمت متعین کر لی ہے اور اپنے نظریے بنا لیے ہیں۔ اگر ڈیل سے متعلق ساری چہ مگوئیاں بھاپ بن کر اڑ گئیں تو پھر کیا ہو گا؟

**

سینیئر تجزیہ کار عامر غوری کا یہ مضمون The News International میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عامر غوری جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی ہیں۔