Get Alerts

جنرل پرویز مشرف نے کتنی جنگیں لڑیں اور کتنے فوجی آپریشن کیے؟

پاک فوج کارگل میں بری طرح پھنس کے رہ گئی تھی۔ ایک جانب سویلین حکومت کو اندھیرے میں رکھا گیا اور دوسری جانب جنگ میں شہید ہونے والے اپنے فوجیوں کی لاشیں بھی اٹھانے سے انکار کر دیا گیا۔ بالآخر وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی صدر بل کلنٹن سے درخواست کرنی پڑی کہ وہ پاکستان کو اس جنگ سے نکالیں۔

جنرل پرویز مشرف نے کتنی جنگیں لڑیں اور کتنے فوجی آپریشن کیے؟

جنرل پرویز مشرف 7 اکتوبر 1998 کو ملک کے 13 ویں چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ 12 اکتوبر 1999 کو منتخب سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر وہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو بنے اور انہوں نے آئین کو معطل کر دیا۔ وہ چوتھے فوجی سربراہ تھے جنہوں نے براہ راست اقتدار پر قبضہ کیا۔

جنرل مشرف کا دور اقتدار کئی تنازعات سے عبارت ہے تاہم یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ اپنے فوجی کریئر کے دوران انہوں نے کون کون سی جنگیں شروع کیں اور بطور سپہ سالار کون کون سے فوجی آپریشن کیے۔

کارگل جنگ

کارگل بھارت کے زیر انتظام علاقے لداخ کا ایک ضلع ہے۔ 1999 میں مئی سے جولائی تک ہمالیائی پہاڑوں میں لڑی جانے والی کارگل جنگ کے دوران پاکستان اور بھارت کے سینکڑوں فوجی مارے گئے جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس جنگ کے دوران لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف عام شہریوں کو بھی خاصا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے 2018 میں شائع ہونے والی کتاب 'سپائے کرانکلز' میں لکھا ہے کہ کارگل ' جنرل پرویز مشرف کا طویل عرصے سے جنون تھا'۔

1988-89 میں جب پرویز مشرف برگیڈیئر تھے اور سیاچن گلیشیئر کے علاقے میں تعینات نو تشکیل شدہ برگیڈ کو کمان کر رہے تھے اس وقت انہوں نے وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو کارگل میں فوجی کارروائی کی تجویز پیش کی تھی مگر وزیر اعظم نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔

7 اکتوبر 1998 کو وہ آرمی چیف بنے تو پاکستان ایٹمی طاقت بھی بن چکا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو محسوس ہوا کہ کارگل کے علاقے واپس لینے کا اس سے بہتر وقت کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے اس لئے بھارت کے ساتھ جنگ زیادہ نہیں پھیلے گی۔

کارگل آپریشن سویلین حکومت کی رضامندی سے شروع کیا گیا یا یہ جنرل پرویز مشرف کی خفیہ مہم جوئی تھی، اس سے متعلق متضاد آرا موجود ہیں۔

معروف صحافی نسیم زہرہ اپنی کتاب From Kargil to the Coup میں لکھتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے فوجی سربراہ بننے کے فوراً بعد سینیئر ترین جرنیلوں کے ایک گروپ نے کارگل آپریشن کی تیاریاں شروع کر دی تھیں جسے انہوں نے 'آپریشن کوہ پیما' کا نام دیا تھا۔ ان کے بقول اس بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کو نہیں بتایا گیا تھا۔

جنرل شاہد عزیز اس وقت آئی ایس آئی میں تھے۔ وہ اپنی کتاب 'یہ خاموشی کہاں تک؟' میں لکھتے ہیں کہ کارگل آپرپشن کی سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی تھی۔ صرف 4 جرنیلوں کو اس کی خبر تھی۔ جی ایچ کیو کو بھی اس سے متعلق بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔ پاک فضائیہ کو بھی آخر تک آپریشن سے بے خبر رکھا گیا تھا۔

پاک فوج کارگل میں بری طرح پھنس کے رہ گئی تھی۔ ایک جانب سویلین حکومت کو اندھیرے میں رکھا گیا اور دوسری جانب جنگ میں شہید ہونے والے اپنے فوجیوں کی لاشیں بھی اٹھانے سے انکار کر دیا گیا۔ تاہم، بعد میں پاکستان نے بھارتی فوج سے یہ لاشیں وصول کر لی تھیں۔ بالآخر وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی صدر بل کلنٹن سے درخواست کرنی پڑی کہ وہ پاکستان کو اس جنگ سے نکالیں۔

کارگل سے پسپائی وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے مابین مزید تلخیوں کی وجہ بنی جس کا نتیجہ 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت کی صورت میں نکلا۔

وار آن ٹیرر

11 سمتبر 2001 کو دو طیارے امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ امریکہ کی جانب سے کہا گیا کہ یہ طیارے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی جانب سے اغوا کر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے گئے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور انہوں نے القاعدہ کی قیادت کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو بھی اپنا اتحادی بنا لیا اور افغان طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کی بھرپور معاونت کی۔

وار آن ٹیرر کے سائیڈ ایفیکٹس

پاکستان اس جنگ میں شامل ہوا تو نیٹو افواج کو پاکستان سے زمینی راستہ دیا گیا۔ پاکستان نے اپنے ہوائی اڈے امریکی افواج کے حوالے کر دیے۔ جنرل پرویز مشرف نے کئی پاکستانی اور افغان شہریوں کو 'تاوان' کے بدلے امریکہ کے حوالے کیا۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کو ڈالر تو ملے مگر اسی دوران پاکستان کے علاقوں میں ڈرون حملے شروع ہوئے، جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا۔ افغانستان سے دہشت گرد بھاگ کر پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں انہیں پناہ دی گئی۔

لاکھوں کی تعداد میں عام پاکستانی شہری اور پاک فوج کے اہلکار بھی اس جنگ کا ایندھن بنے۔ یہاں سے شروع ہونے والا دہشت گردی کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز

افغانستان پر حملے کے وقت مبینہ طور پر بہت سے القاعدہ دہشت گرد پاک افغان سرحد عبور کر کے شمالی وزیرستان میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ ان دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے نہیں روکا گیا اور بعد میں انہی کے خلاف پاک فوج کو آپریشن کرنا پڑا جس کی زد میں عام شہری بھی آئے۔ دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے ان آپریشنز کا سلسلہ 2004 میں شمالی وزیرستان سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ جنوبی وزیرستان، باجوڑ ایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور خیبر ایجنسی تک پھیل گیا۔

لال مسجد آپریشن

جولائی 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر فوج نے آپریشن کیا جسے 'آپریشن سائلنس' کا نام دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف اس آپریشن کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ سنجیدہ ہیں اور پاکستان میں اگر وہ اقتدار میں نہ رہے تو ملک پر دہشت گرد قبضہ کر لیں گے۔ تاہم ان کے اس آپریشن پر کئی سوال بھی اٹھے۔ پہلا سوال تو یہ تھا کہ ریاستی اداروں کی عین ناک کے نیچے واقع لال مسجد میں اتنی بھاری مقدار میں اسلحہ جمع کیسے ہونے دیا گیا؟ اور پھر چوہدری شجاعت حسین کا یہ بیان بھی آپریشن کو متنازعہ بناتا ہے کہ لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ معاملات مذاکرات کی سطح پر حل ہو چکے تھے مگر اس کے باوجود ناجانے کیوں آپریشن کا حکم دیا گیا؟

آپریشن سائلنس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کے ردعمل میں طالبان جنگجوؤں کی ایک نئی تنظیم وجود میں آئی جسے اب تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی نے تب سے ریاستی اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں پر متعدد حملے کیے ہیں اور فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

آپریشن راہِ حق

2007 میں خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں جنرل پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف پہلا بڑا فوجی آپریشن 'راہِ حق' کے نام سے شروع کرایا۔ اس آپریشن کے باعث ضلع سوات کے لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جانا پڑا اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی ہوا۔

بلوچستان میں شدت پسندی میں اضافہ

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کی پاداش میں افغان طالبان نے جہاں پاکستان کو نشانے پہ رکھ لیا اور لال مسجد پر آپریشن کے بعد بننے والی تحریک طالبان پاکستان جس طرح پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درپے ہو گئی اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے بلوچستان میں کیے گئے ایک آپریشن نے بلوچستان میں شدت پسندی اور نفرت کے ماحول کو مزید سنگین بنا دیا۔

ڈاکٹر شازیہ مری کیس اور اکبر بگٹی کا قتل

ڈاکٹر شازیہ مری ریپ کیس مشرف دور کی ایک تلخ یاد ہے۔ اس واقعے نے بلوچستان کے عوام کے احساسِ محرومی میں اضافہ کیا۔ جنرل مشرف نے بلوچ قبائل پر فوج کشی کی اور ایک بیان میں پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ اور بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمہیں وہاں سے ماریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کیا آ کر لگا ہے۔ چنانچہ 26 اگست 2006 کو ایک غار پر میزائل حملے میں اکبر بگٹی مارے گئے۔

بلوچ رہنما اکبر بگٹی کے قتل نے بلوچستان میں لگی بدگمانی کی آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ بڑے پیمانے پر لوگ ریاست پاکستان اور پاک فوج کے مخالف ہو گئے۔ علیحدگی پسند سوچ اور مسلح مزاحمت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بدگمانیاں اتنی بڑھیں کہ ریاست کو آج بھی انہیں ختم کرنے کا کوئی طریقہ سجھائی نہیں دے رہا۔

بھارت میں سرگرم جہادی تنظیموں پر پابندی

جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر کا غیر روایتی اور 'آؤٹ آف دی باکس' حل دنیا کے سامنے رکھا۔ دوسری جانب بھارت کو پاکستان سے یہ گلہ تھا کہ پاکستان ان شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے جو کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف لڑتی ہیں اور بھارت میں بھی حملے کرواتی ہیں۔ بھارت کی اس بدگمانی کو ختم کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سازگار ماحول بنانے کے لئے جنرل پرویز مشرف نے درجنوں جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کر دی۔ ان میں لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، جیش محمد، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، سپاہ محمد، تحریک جعفریہ، جیش اسلام اور بلوچستان لبریشن آرمی قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ہی کچھ تنظیموں نے ان پر قاتلانہ حملے بھی کیے جن میں پرویز مشرف بال بال بچے۔ جس کی تفصیل آپ کو ایک اور وی لاگ میں جلد بتائیں گے۔

جنرل مشرف مسئلہ کشمیر کو اگرچہ حل تو نہ کر سکے تاہم کہا جاتا ہے کہ وہ اسے حل کرنے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں۔ وہ عالمی ادب، بین الاقوامی سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔